واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں سے کسی قسم کی مشاورت کے بغیر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نتن یاہو سے دو سالہ مذاکرات کے بعد مشرقِ وسطیٰ اور فلسطین سے متعلق اپنا منصوبہ پیش کردیا جسے ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ساتھ صدر ٹرمپ نے یہ منصوبہ پیش کیا جس کی تفصیلات سے بھی قبل فلسطینی مسترد کرچکے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ یہ منصوبہ ہر حال میں اسرائیل کے مفاد میں پیش کیا جائے گا جبکہ نیتن یاہو نے اسے تاریخ سازی کا ایک موقع قرار دیا ہے جس کے تحت اسرائیلی سرحدوں کا حتمی تعین کیا جاسکے گا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’امن منصوبہ دونوں فریقین کے لیے مفید ہے اور فلسطین اور اسرائیل کے لیے ایک مضبوط راہ دکھاتا ہے، منصوبے کے تحت فلسطین دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا‘۔
صدر ٹرمپ نے بتایا کہ گزشتہ 70 برس میں اس ضمن میں بہت کم پیش رفت ہوسکی، فلسطینیوں کے پاس تاریخی موقع ہے کہ وہ اپنی آزاد ریاست حاصل کرسکیں گے اور اسرائیل کے خطرات بھی کم ہوں گے۔
یروشلم اسرائیلی دارالحکومت رہے گا
اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا جبکہ نتن یاہو نے اس اعلان کے بعد صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں رہنے والے اسرائیل کے سب سے بڑے دوست کا خطاب بھی دیا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں سے کہا کہ وہ اسرائیل کو یہودی مملکت کے طور پر تسلیم کریں۔
غزہ میں احتجاج
غزہ کی پٹی میں ہزاروں افراد نے اس فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں کا رخ کیا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ اور نتن یاہو کی تصاویر کو آگ لگائی اور بینروں کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا کہ ’فلسطین برائے فروخت‘ نہیں۔
اس اعلان کے بعد الفتح سے تعلق رکھنے والے فلسطینی صدر محمود عباس سے شدید اختلافات رکھنے والی تنظیم حماس نے بھی صدر کے بیان کی تائید کی ۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ وہ تمام فلسطینی فریقین سے وسیع تر گفتگو کے منصوبے کی تائید بھی کرتے ہیں۔
یہ فلسطینی مزاحمت کے خاتمے کا منصوبہ ہے، وزیر اعظم محمد اشتیہ
فلسطینی وزیرِ اعظم محمد اشتیہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی مزاحمت اور مقصد کے خاتمے کا ایک منصوبہ ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور فلسطینیوں کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ اس حل کو قبول کرنے سے مقبوضہ مشرقی یروشلم، مقبوضہ مغربی کنارے اور دس سال سے محصور غزہ کی بطور آزاد ریاست کی امیدیں دم توڑ جائیں گی، فلسطینی رہنماؤں کو واشنگٹن میں مذاکرات کے لیے نہیں بلایا گیا اور ان کے بغیر کوئی منصوبہ کارآمد نہیں ہوگا۔
دریں اثنا دوسری جانب عرب لیگ نے اس مسئلے پر ہفتے کو ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔
Comments are closed.