روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ ، نہیں جانتے، کیا ہے؟ کورونا وائرس
- تحریر وتصویر :- سمیعہ خورشید
روٹی کپڑا اور مکان نعرے کی چکی میں پستے نہیں جانتے ، کیا ہے؟ کورونا وائرس
دنیا میں کورونا نام کا وائرس ہے مصری جت کے لوگوں کے لئے یہ لفظ نیا ہے۔ اسکول کالج بند اورکھل رہے ہیں جت برادری کے بچوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وہ اسکول نہیں جاتے، اسکول ہونگے تو جائینگے۔ لاک ڈاون کے بعد معاشی مسائل سے دنیا میں سب پریشان ہیں انہیں اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کیوں کہ تیمرکی کٹائی ماحولیاتی تبدیلیوں سے یہاں کے لوگ پہلے ہی بہت پریشان ہیں۔ ماسک، صاف پانی سے بار بار ہاتھ دھونا، سینیٹائزر، چھ فٹ کا فاصلہ، ایس- او- پیز سے نا آشنا کھاروچھان کے لوگ ایسا کچھ بھی نہیں جانتے کیوں کہ وہ ٹی وی نہیں دیکھتے، ہوگا تو دیکھینگے، مگر! مصری جت کے مچھیروں کی اس بستی میں ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ یہاں کا ایم- این- اے آیازالشیرازی اور ایم- پی- اے محمدعلی خان ملکانی ہے جو کہ پی پی پی کے نمائندے ہیں۔
نمرول اور علی مراد مجھے ڈانڈوجے ٹی کے کنارے ملے علی کو اپنی عمر کا اندازہ نہیں مگر ناؤ چلانی آتی ہے دو سال سے چلا رہا ہے سنہری کے اندازے کے مطابق وہ 12 سال کا ہوگا اور نمرول 6 سال کا جسے معلوم نہیں کہ اس دنیا میں اسکول نام کی بھی کوئی شے ہے مگران دونوں سندہ کے بیٹوں میں ایک بات مشترکہ تھی مسکراہٹ اور معصومیت بلکہ مصری جت کے تمام لوگوں میں یہی معصومیت مشترکہ تھی اورانکا پیشہ ماہی گیری، چاہتے ناچاہتے ہوئے ان کو یہی پیشہ اپنانا پڑتا ہے کیونکہ ماہی گیری کےعلاوہ اور کوئی آمدن کا ذریعہ ہے نہ ہی کوئی دوسرا کام جو یہ کرسکیں ان لوگوں میں صلاحیتیں تو ہیں مگر نسل درنسل یہی پیشہ اپنا نا پڑتا ہے کیوں کہ ان کے پاس وسائل نہیں۔
- سفری مسافت انہیں تھکا رہی ہے مصری جت سے ڈانڈوجے ٹی تک دیڑھ گھنٹہ، گاڑھو تک ڈھائی گھنٹہ کراچی پہنچتے پانچ گھنٹے کا راستہ ہے۔
شورمچاتا دریا منہ پہ آتی لہروں کی چھینٹیں جس قدر لطف دے رہیں تھیں اسی قدر دیڑھ گھنٹے مسلسل کشتی چلنے کی کھرکھر سے ذہن تھک گیا تھا جب ہم دریائی سفر کے شور شرابے کو پار کرکے کنارے پہنچے تو بستی کے سکوت نے حیران کر دیا کہ آیا یہاں کوئی آباد ہے؟ تھوڑی دور چلنے پر ہمیں جال کو سیدھا کرتے مچھیرے نظر آئے اور کچھ آگے جانے پہ خواتین بچوں سے ملاقات ہوئی خواتین اور بچوں کو قومی زبان اردو بولنے اور سمجھنے میں دقت تھی مگر کچھ سنہری نے سندھی بولی تھوڑٰی انہوں نے اردو سمجھی اور کام چل گیا ان کے لباس دور سے دکھنے میں ایک جیسے تھے دیسی رنگوں کی لمبی اور ڈھیلی فراکیں مگر ایسا نہیں تھا قریب سے دیکھا توان سب کی فراکوں پہ مختلف نقش ونگار تھے گلے پہ سلور گولڈن لیس کے ساتھ اون کے گہرے رنگوں سے ٹکے شیشے ان سب کے لباس کو ایک دوسرے سے منفرد کر رہے تھے اور سر پہ چادرایک منفرد اندازمیں سب نے ایک ہی طرح سے لی ہوئی تھیں ایک طرف سے چادر کا پلو پیچھے تھا اور دوسری طرف سے پیچھے سے لا کر ہاتھ میں لپیٹا ہوا تھا اور بات چیت کے دوران دوپٹے سے منہ کو چھپا لینا مصری جت کی خواتین کے ثقافتی حسن کو چار چاند لگا رہا تھا۔
ڈسٹرک ٹھٹھہ میں انڈس ڈیلٹا کے کنارے تقریبا کھاروچھان میں 30 سے زائد گاؤں آباد ہیں، مصری جت ان میں سے ایک ہے ۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ونودکمار کے مطابق 367 افراد کا یہ گاؤں 98 مرد، 112 خواتین، 56 لڑکے، اور 84 لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے مگر مسائل بڑے ہیں جیسے یہاں کا میٹھا پانی اب کھارا ہورہا ہے جس کی وجہ سے اب یہ پینے کے لئے میٹھا پانی ڈیلٹا پارکر کے کشتی میں بھرکرلاتے ہیں جس پرخرچہ زیادہ آتا ہے پانی کی قیمت اور سفری خرچہ ملا کر پینے کا پانی دگنی قیمت کا ہوجاتا ہے مگر خریدنا ان کی مجبوری ہے کیونکہ پانی زندگی ہے۔ ہسپتال وہاں موجود نہیں مکینوں کے مطابق گھر میں موجود کوئی بھی دوا پلا دیتے ہیں بچ گئے تو اللہ مالک مرگئے تو اللہ کی مرضی۔ زچگی میں اگرمشکلات پیدا ہوں اور دائی کے بس سے باہر کیس ہوجائےتو پانچ گھنٹے کا راستہ طے کرکے کراچی تک پہنچ کر مریض کا بچنا ناممکن ہوتا ہے۔ جت برادری کے بچوں کے لئے سندہ حکومت کی طرف سے کوئی گورنمنٹ اسکول نہیں ہے وہ تعلیم سے محروم ہیں۔
ونود کمار نے مزید بتایا کہ یہ لوگ ووٹ بھی ڈالتے ہیں پولنگ بھی ہوتی ہے ایم-این-اے ،ایم-پی-اے تک رسائی بھی ہوتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سہولیات ان تک نہیں پہنچتیں یہ ووٹر پی پی پی کے ہیں مگران کو یہ نہیں معلوم کہ ان کے حقوق کیا ہیں یعنی ان کو ووٹ کے بدلے تعلیم، ہسپتال، صاف پانی، زچگی جیسی بنیادی سہولیات مانگنی چاہیں یہ ان سب باتوں سے بے خبر ہیں ان لوگوں کو وسائل کی عدم دستیابی کا شدت سے احساس اس وقت ہوتا ہے جب کسی کی زچگی بگڑ جائے یا کوئی بیماری میں تڑپ رہا ہو اور یہ لوگ بے بسی کی تصویربنے ہوان کا پیارا ان سے چھن جائے مگر وسائل تک رسائی نہ ہو۔ اگریہ لوگ طویل دریائی راستے واری چینل کی بجائے، زمینی راستہ اپنائیں تو چوھڑجمالی تک 70 کلومیٹر تک سفر کرنا پڑتا ہے مگراس زمینی راستے پہ سڑک موجود ہی کہاں ہے جس کے باعث 70 کلومیٹرکا یہ راستہ 3 گھنٹے کا طویل سفربن جاتا ہے اور اگر کھارو چھان سے چوھڑ جمالی جانے کے لئے میرپور بتھرو کے راستے جائیں تو143 کلومیٹر کا راستہ مزید طویل ہوجاتا ہے اورمریض کے بچنے کی امید ناممکن ہوجاتی ہے ۔
علاقہ مکینوں سے بات چیت کے دوران پوچھا کہ وہ دوسرے شہروں میں آکے کیوں نہیں رہتے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم باہرآکرکیا کریں گے! ہمارے پاس زمین ہے نہ گھر بنانے کے پیسے اور سفری اخراجات زیادہ ہوتے ہیں ان تمام اخراجات کو کیسے برداشت کرینگے کوئی کاروبار نہ کوئی ہنرآتا ہے سوائے ماہی گیری کے۔ مصری جت کے مکینوں نے مزید بتایا کہ ایک اسکول ہے75 کلومیٹر کے فاصلے پہ وہ اسکول بھی بس نام کا ہے الیکشن کے وقت ایم پی اے محمد خان ملکانی ووٹ مانگنے آتے ہیں اس کے بعد جب دوبارہ الیکشن آتے ہیں اس وقت آتے ہیں۔ ڈبلیوڈبلیوایف نے ہمیں کیکڑوں کے پونڈز بنا کے دیئے ہیں اس سے ہمارے روزگار میں اضافہ ہوگا۔
ڈبلیوڈبلیوایف کے کنزرویشن آفیسر ونود کمار نے بتایا کہ ہم نے ان کوکیکڑے اورمچھلی (کریب فش فارمنگ )کی افزائش کا انتظام کرکے اس لئے دیا ہے تاکہ یہ ان کی افزائش کر کے آمدنی کے وسائل پیدا کرسکیں اور یہ خود کفیل ہوں۔ ہماری ترجیح ہے کہ کمیونیٹیرکو وسعت دیں اوراتنی معلومات دیں کہ وہ گورنمنٹ اداروں تک رسائی حاصل کرسکیں۔ ڈبلیوڈبلیوایف کے مطابق تقریبا 10 20xفٹ کے 6 پونڈز بنا کے دیئے ہیں مصری جت کے لوگ خصوصا خواتین اس میں کام کرتی ہیں اور 500 کا کیکڑا خرید کراس کی افزائش کر کے 800 تک میں بیچ کر اپنے گھر کی آمدنی بڑھارہی ہیں ابھی زیادہ بچت تو نہیں آرہی لیکن جب ان پونڈز فارمنگ میں مچھلی اور کیکڑوں کی افزائش ہوجائے گی تو ان کا محنت کا معاوضہ زیادہ ہوجائے گا۔
دریائے سندھ جو دنیا کے دس بڑے دریاؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ دریا اپنے ساتھ زرخیزمٹی سمیٹ کر کیلاش کی جھیل مانسرو سے مسافت طے کرتا ہوا سمندر تک پہنچتا ہے۔ اس کی تیز لہریں سمندر کے پانی کو پیچھے دھکیل کراپنے ساتھ لائی زرخیز مٹی سے سمندری زمین کو ڈھانپ لیتی ہیں اور اس طرح ایک زرخیز ڈیلٹا کی زمین تشکیل عمل میں آتی ہے۔ ہربڑے دریا کی طرح دریا سندہ کے کنارے بھی کئی تہذیبوں نے جنم لیا ہم انہیں ڈیلٹائی تہذیب یا تیمر تہذیب کہہ سکتے ہیں۔ کبھی یہ لوگ خوش حال اور ترقی یافتہ تھے مگریہ گزرے وقت کی بات ہے، اب پہلے جیسا کچھ نہیں! موسمیاتی تبدیلیوں نے ساحلوں پر بسنے والوں کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔ پاکستان کا اس وقت موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں پانچواں نمبر ہے The Global Climate Risk Index) ) عالمی اداروں کی رپورٹس پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں۔
وزیراعظم کےمشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی خطرات کی ضمن میں پاکستان کو 3800 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے اور پاکستان معاشی نقصانات کے حوالے سے دوسرے نمبر پرآتا ہے۔ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے حکومت کو مجموعی قومی پیداوار کا 6 سے ٪ 8 ان تباہ کاریوں سے نمٹنے میں خرچ کرنا پڑتا ہے اور اگر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہجرت کے عمل میں لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات کا بھی شمار کیا جائے تو یہ نقصان اور بڑھ جائے گا۔ ساحلوں پر بسے معمرافراد نے بتایا کہ تین دھائیوں پہلے تک ضلع ٹھٹھہ میں اتنی بدحالی نہیں تھی۔ ذرعی زمینوں پر گندم اور چاول کی فصلیں لہلاتی تھیں اور رسیلے پھلوں کے باغات تھے۔ چونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی کمی واقع ہوئی ہے سمندر کی بڑھتی سطح زرعی زمینوں کو نکل رہی ہے اور میٹھے پانی کی کمی نے زراعت کو ناممکن بنا دیا ہے موسمی تبدیلیوں نے ان کے متبادل پیشے زراعت کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے اس طرح ان کے پاس صرف ماہی گیری کا ہی پیشہ اپنانے کے لئے بچا ہے اور جس طرح سمندر کا کھارا پانی ڈیلٹا کی زمین کے بڑے حصے کو نگل چکا ہے ساحلی علاقوں کی تباہ کاریوں میں تیمر کے یہ جنگلات سمندری طوفانوں اور سمندر کے پانی کو آگے بڑھنے سے روکنے میں محافظ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
سنہری نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ سرکار نے روٹی کپڑا مکان کا وعدہ کیا ہے تعلیم علاج خوشحالی اور ترقی کا نہیں معصومیت بھرے طنزیہ لہجے نے بتایا کے لوگ اتنے بھی نامعلوم نہیں۔ گوکہ! اپنے نعرے پہ بھی پورے نہیں اترتے افسوس صد افسوس، کہ یہاں کے لوگ شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھ کر چند گہری سانسیں لے کر خود کو ُپر سکوں کرنا چاہ رہے تھے مگر ان کا حال یہی تھا کہ دل کو روئیں یا پیتٹیں جگرکو ہائے ہائے! ان کی زندگیوں میں درد کے پیوند لگانے والے اور کوئی نہیں بلکہ ان سے سالوں سے ووٹ لیتی سندہ حکومت ہے، جنہوں نے انہیں اب تک نا معلوم رکھا ہوا ہے۔
Comments are closed.