لاہور: پنجاب کابینہ نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی ضمانت میں 8 ہفتے کی توسیع کی درخواست مسترد کردی۔
وزیراعلی عثمان بزدار کی زیر صدارت لاہور میں پنجاب کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی۔
خصوصی کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کیں جن کی روشنی میں پنجاب کابینہ نے نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ پنجاب حکومت نے کہا کہ نوازشریف بورڈ اورکمیٹی کو مطلوبہ رپورٹس پیش نہ کرسکے۔
راجہ بشارت
صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیرقانون پنجاب راجہ بشارت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیج رہے ہیں، لندن سے ہمیں نوازشریف کےکسی آپریشن کی اطلاع نہیں اور 16ہفتے گزرنے کے باوجود وہ اب تک کسی اسپتال میں نہیں داخل ہوئے، نوازشریف کے ذاتی معالج نے بھی حکومت سے رابطہ برقرار نہیں رکھا۔
راجہ بشارت نے کہا کہ کمیٹی نے3دن تک اجلاس کیے اورمیڈیکل رپورٹس کا جائزہ لیا جبکہ میڈیکل بورڈ نے بھی نوازشریف کی رپورٹس پر عدم اعتماد کااظہارکیا، توسیع مسترد ہونے سے نوازشریف کی ضمانت منسوخ ہوجائے گی اور انہیں اشتہاری قرار دینے کیلئے عدالت میں درخواست دیں گے۔
یاسمین راشد
صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد نے کہا کہ نوازشریف لندن میں اسپتال نہیں گئے تو اس کا مطلب ہے ان کی صورتحال سنجیدہ نہیں، لندن سے ہمیں وہی رپورٹس بھیجی گئی ہیں جو ان کے باہر جانے سے پہلے کی ہیں، میں نے کبھی نہیں کہا تھا نوازشریف کو علاج کیلئے بیرون ملک بھیجیں، ہم نے ہمیشہ یہ کہا کہ ان کا پاکستان میں علاج ممکن ہے۔
فیاض الحسن
صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ آل شریف نے بیگم شمیم کو لندن بلا کر پیغام دیدیا اب وہ واپس نہیں آئیں گے، ہم نے ذاتی معالج کی رپورٹس پر فیصلے نہیں کرنے، پنجاب کابینہ کا فیصلہ 100فیصد قانونی اور اخلاقی ہے۔
رانا ثنااللہ
ن لیگ کے رہنما رانا ثنااللہ نے کہا کہ حکومت سے نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کی توقع نہیں تھی، ان کے پاس ساری رپورٹس ہوں گی پھر بھی کہیں گے پوری نہیں، نوازشریف جب تک صحت مند نہیں ہوں گے وہ وہیں قیام کریں گے، چاہے 16ہفتے ہوں یا 600 ہفتے گزر جائیں وہ صحت مند ہونے کے بعد ہی واپس آئیں گے، لندن کے اسپتال اور ڈاکٹر کو ہم علاج کے لیے مجبور نہیں کر سکتے۔
شہبازشریف
ادھر ایک بیان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے نوازشریف کی ضمانت میں توسیع نہ دینے کے پنجاب حکومت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
پس منظر
24 دسمبر 2018 کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید جب کہ ڈیڑھ ارب روپے اور 25 ملین ڈالر جرمانے کی سزا کا حکم سنایا تھا جس کے بعد وہ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید تھے۔
نواز شریف نے طبی بنیادوں پر عدلیہ سے بیرون ملک جانے کی اجازت مانگی تھی اور عدالت نے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔ 20 نومبر 2019 کو نواز شریف علاج کی غرض سے لندن چلے گئے تھے جس کے بعد وہ واپس نہیں آئے۔
Comments are closed.