تحریر: اطہر مسعود وانی
انسان جو سوچتا ہے ،جو کہتا ہے جو لکھتا ہے، یہ علم کا تسلسل ہے جو دریا کی مانند بہتا ہے،جس جس کو پڑھا ہوتا ہے، وہ شخصیت میں یوں اتر جاتے ہیں کہ خیالات وجود کا حصہ بن جاتے ہیں۔تحریر وہی ہوتی ہے جو نزول کی طرح وارد ہوتی ہے،کالم وہی ہوتا ہے جو نزول ہوتا ہے ، آپ یوں لکھتے جاتے ہیں کہ جیسے کوئی عالم غیب سے آپ کو ڈکٹیشن دے رہا ہو۔ بعض اوقات خیالات کا ایسا نزول ہو تا ہے کہ طبعیت سرشار ہو جاتی ہے ، لیکن ذہن میں کسی اور سوچ سے خیال ایسا بھٹکتا ہے کہ طبعیت بے چین ہو جاتی ہے کہ کیا تھا اور کہاں چلا گیا ! خیالات جو کھو جاتے ہیں، خیالات جو مر جاتے ہیں، اس کا دکھ کسی پیارے کی جدائی سے کم نہیں ہوتا۔شاید یہ عدم توجہ کی سزا ہو۔ بعض اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ زندگی میں ہم کسی حوالے سے کسی شخصیت سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب اس شخصیت سے ملاقات ہو تو تصور کا خوبصورت شاہکار چکنا چور ہو جاتا ہے اور انسان سوچنے لگتا ہے کہ یہ شخص تو عام سا انسان ہی نکلا۔ہم زندگی میں کسی سے متاثر ہوتے ہیں،اس سے ملنے کی چاہت رہتی ہے لیکن جب ملاقات ہو تو چاہت کا بت ٹوٹ جاتا ہے، بہت مایوسی ہوتی ہے کہ ہم کیا سمجھتے رہے اور وہ کیا نکلا۔دراصل ہر انسان مختلف اوقات میں مختلف موڈ میں ہوتا ہے۔کبھی وہ کسی انداز میں ہوتا ہے کبھی کسی اور انداز میں۔ انسان کی شخصیت کی قریب جا کر ہی اس کے اندر جھانکاجا سکتا ہے، با ہر سے تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔تقریباپچیس سال قبل ایک دوست نے بتایا کہ میر ایک دوست آپ کو پڑہتا رہتا ہے،وہ آپ سے متاثر ہے اور آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔کچھ ہی دنوں بعد وہ نوجوان اشتیاق سے مجھ سے ملنے آیا۔کچھ دیر بیٹھا،کچھ باتیں کیں اور چلا گیا۔کچھ دن بعد اس سے تعارف کرانے والے دوست سے ملاقا ت ہوئی۔اس نے بتایا کہ اس کا وہ دوست مجھ سے ملاقات کر کے بہت مایوس ہوا، اس نے اسے کہا کہ ’’ وہ تو ایک عام سا انسان ہے، اس میں تو کوئی خاص بات نہیں‘‘۔ بعض افراد سے آپ کی فریکوئونسی یوں ملتی ہے کہ ملاقات ہوتے ہی طبعیت سرشار ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے مدت سے جانتے ہوں، اسی طرح بعض افراد کے درمیان فریکوئونسی کا اتنا فرق ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی عام بات کو بھی سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔پاکستان کے ایک سابق سیکرٹری خارجہ نے بیوروکریٹس کی ایک تربیتی نشست میں اپنا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ انہوں نے بتا یا کہ ایک مرتبہ انہیں سرکاری ذمہ داری کے حوالے سے ڈھاکہ جانے کا موقع ملا۔ڈھاکہ کا خیال آتے ہی انہیں ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزرا وقت یاد آ گیا۔انہوں نے ڈھاکہ میں متعین پاکستانی سفارت خانے کے افراد سے درخواست کی کہ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک لڑکی ان کی کلاس فیلو تھی جو تمام یونیورسٹی کی آنکھوں کا تارہ تھی۔قابلیت کے علاوہ حسن و جمال میں بھی وہ بنگالی لڑکی سب میں نمایاں تھی۔ سابق خارجہ سیکرٹری بتا رہے تھے کہ میں اس لڑکی سے بہت متاثر رہا،بڑھاپے تک پہنچ گیا لیکن اس لڑکی کی خوبصورت شخصیت کا ہیولہ اب بھی ان پہ حاوی تھا۔ انہوں نے سفارت خانے کے عملے سے درخواست کی کہ وہ ڈھاکہ کے دورے کے موقع پر ڈھاکہ یونیورسٹی کی اس لڑکی سے ملنا چاہتے ہیں،اس کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ وہ کہاں ہے۔
سفارت خانے کے عملے نے ڈھونڈ کر اس لڑکی کا سراغ نکالا اور اس کے پاس جا پہنچے۔ انہوں نے اسے تمام بات بتائی اور سیکرٹری خارجہ کی اس خواہش کو بیان کیا کہ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ لڑکی اب بوڑھی ہو چکی تھی۔ اس نے تمام بات سننے کے بعد اس سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔اصرار کے باوجود وہ ملاقات پر رضامند نہیں ہوئی۔ اس پر اس کے شوہر سے ملاقات کر کے اس کو تمام معاملہ بتاتے ہوئے سیکرٹری خارجہ کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ سفارت خانے کے افسران کی موجودگی میں اس کے شوہر نے بھی اپنی بیوی سے کہا کہ وہ ان سے ملاقات کرتے ہوئے ان کی خواہش پوری کر دے۔لیکن اس کے باوجود وہ خاتون ان سے ملاقات پر رضامند نہیں ہوئیں۔
اس پر سب ہی حیران ہوئے کہ وہ خاتون ملاقات سے گریزاں کیوں ہیں۔استفسار پر خاتون نے جواب دیا کہ میرا وہ کلاس فیلو بڑھاپے تک میرے حسین تصور کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے، میں نہیںچاہتی کہ میں اس کی زندگی کے اس خوبصورت تصور کو ختم کردوں۔میرے اس کلاس فیلو کے تصور میں میری وہی تصویر موجود ہے جو اس نے مجھے یونیورسٹی میں دیکھا تھا،اس وقت میں حسین تھی،پرکشش شخصیت کی مالک تھی، آج میں بوڑھی ہو چکی ہوں، میرے خدو خال بدنما ہوچکے ہیں، میں نہیں چاہتی کہ میرے اس کلاس فیلو کا یہ تصور ختم ہو جائے، اب وہ مجھے دیکھے گا تو اس کی زندگی کا حسین تصور ختم ہو کر رہ جائے گا،ایک بوڑھی،بد ہیت خاتون سے ملاقات اس کے تصور کو چکنا چور کر دے گا،میںچاہتی ہوں کہ میری خوبصورت یاد کا تصور میرے کلاس فیلو کے ساتھ زندگی بھر موجود رہے، اسی لئے اب میں اس سے ملاقات نہیں کرنا چاہتی۔
Next Post
Comments are closed.