اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سمیت کئی سیاستدانوں کی آف شور کمپنیاں ہیں جنہیں ظاہر نہیں کیا گیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں جواب الجواب جمع کرا دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کئی نمایاں شخصیات نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی جائیدادوں کو چھپایا ہوا ہے۔
جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی ان نمایاں شخصیات میں شامل ہیں، وزیراعظم نے خود اپنی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے۔
انہوں کہا کہ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں میری ذات پر الزامات لگائے گئے، الزامات غلط ثابت ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ سپریم کورٹ توہین عدالت مقدمہ میں سابق وزیراعظم کو سزا دے چکی ہے اور فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی تیاری سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان لاعلم نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جواب میں کہا کہ اثاثہ ریکوری یونٹ قانونی باڈی نہیں اور نہ ہی اثاثہ جات ریکوری یونٹ کا کسی قانون، وفاقی حکومت کے رولز، سرکاری گزٹ میں ذکر موجود ہے۔
اپنے جواب میں انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے میری فیملی کی مخبری کے لیے برطانیہ میں نجی کمپنی کی خدمات حاصل کیں جب کہ میں نے اہلیہ اور بچوں نے برطانیہ کی جائیداد کو آف شورکمپنیوں کے ذریعے کبھی نہیں چھپایا کیونکہ وہ انہوں نے اپنے نام پر خریدیں۔
ججز کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو کونسل نے خارج کر دیا تھا۔
خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی جانب سے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا گیا اور اس پر فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔
اسی حوالے سے چند روز قبل انور منصور خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں عدلیہ پر الزامات عائد کیے جس پر وفاقی حکومت نے نوٹس لیتے ہوئے ان سے استعفیٰ طلب کیا اور ان کی جگہ بیرسٹر خالد جاوید خان کو نیا اٹارنی جنرل تعینات کر دیا جو حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرائیں گے۔
Comments are closed.