Khabardar E-News

امر اجالا

110

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

اس بات سے بھلا کو ن آگاہ نہیں کہ وطن عزیز میں گزشتہ کافی عرصے سے لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کا معاملہ ملکی سیاست اور صحافت میں ایک بڑے ایشو کے طور پر موجود ہے۔اس حوالے سے سرسری سا بھی جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس نقطہ نظر کے افراد کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

نمبر ایک وہ لوگ جو واقعتا سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا تا ہے حالانکہ ایک سروے کے مطابق 16فیصد افراد یہ رائے رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے جبکہ 43فیصد لوگ محض سوشل میڈیا اور گمراہ کن پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ایسا سوچتے ہیں جب کہ بقایا41فیصداس بات مکمل یقین رکھتے ہیں کہ بلوچستان میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہو رہا۔اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ 15اگست 2016کو لال قلعے میں اپنی یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کے دوران مودی نے اعلانیہ کہا تھا کہ ہم بلوچستان کو آزاد کرائیں گے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2022میں ہونے والی تحقیقی رپوٹ کے مطابق امریکہ میں لاپتہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 521,705 ہے جب کہ اس ضمن میں 347,524 کے ساتھ بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔عراق میں لاپتہ افراد کی تعداد 250,000 ہے اور برطانیہ میں یہ تعداد 241,064 ہے۔اس معاملے کا قدرے اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے لاپتہ افراد کی تعداد محض 2,210ہے جس میں بتدریج کم ہو رہی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارتی نیوز ایجنسی ’اے این آئی“اور ’شری واستوگروپ‘ کے ذریعے پاکستان کیخلاف جعلی خبریں چلاتی تھی اور اس ضمن میں ایسے فرضی ناموں کا استعمال ہوتا تھا جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ بھارت ا ی یو کرانیکل کے من گھرٹ نام سے جعل سازی کرکے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سعی کر رہا تھا۔

سنجیدہ حلقوں نے اس امر کا بڑی بد قسمتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان دنوں دوبارہ ملک کے اندر اور باہر وطن عزیز کے قومی سلامتی کے اداروں کو ہدفِ تنقید بنانے کا سلسلہ ایک رجحان کی شکل اختیار کر چکا ہے اور مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانی نوجوانوں اور سادہ لوح شہریوں کا ایک حلقہ نا دانستگی میں اس پراپیگنڈہ مہم سے متاثر بھی ہے۔ ایسے میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بجا طور پر ان حلقوں کو خبردار کیا ہے۔ اس تناظر میں مبصرین کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے افسران و جوانوں کی قربانیوں کی فہرست اتنی طویل ہے جس کا ایک یا دو تحاریر میں احاطہ کر پانا ناممکن ہے۔ کرونا وائرس جیسی قدرتی آفت ہو،دہشتگردی کیخلاف جنگ یا سیلاب کے باعث تباہی کا شکار ہم وطنوں کی بحالی کا کام، پاک فوج نے ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ سنجیدہ ماہرین کے مطابق یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاک فوج کے جوان سے جرنیل تک ہر ایک نے دفاع وطن کیلئے ہمیشہ جو قربانیاں دیں وہ عسکری اور ملکی تاریخ کا سنہرا باب ہے جس پر بلاشبہ ہر پاکستانی کو فخر ہے۔

اسی تناظر میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ دہلی سرکار کی جانب سے پاکستان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی غرض سے بھارت میں سرکاری سطح پر منظم کوششیں عرصہ دراز سے جاری ہیں جن کے شواہد تین برس قبل بھی سامنے آئے تھے۔ یورپی یونین کے تحت ڈس انفارمیشن کی منظم کوششوں کا سراغ لگانے اور انہیں بے نقاب کرنے والے خود مختار ادارے ’ای یو ڈس انفو لیب‘ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ جس کے مطابق بھارت، اقوام متحدہ اور یورپی یونین پر اثر انداز ہونے کے لیے گذشتہ اٹھارہ برس سے ”انڈین کرانیکلز“ کے نام سے جعلی میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں کا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ اس نیٹ ورک میں 750 جعلی اور فرضی ادارے شامل تھے۔ ای یو ڈس انفو لیب کے مطابق اس بڑے پیمانے کی ڈس انفارمیشن مہم کا بنیادی ہدف پاکستان ہی ہے۔ اس کے لیے بھارت نے یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی شناخت کو بھی استعمال کیا۔

تقریبا تین برس قبل اس ادارے نے بھارتی ڈس انفارمیشن نیٹ ورکس پر پہلی تحقیقی رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ بھارت کی جانب سے 65 سے زائد ممالک میں 265 سے زائد مقامی ویب سائٹس چلائی جا رہی تھیں جن کے ذریعے بھارت پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتا ہے۔ اس جعل سازی میں بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے اداروں اور اہم شخصیات کے نام اور شہرت کو بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیاگیا‘ یہاں تک کہ ایسے افراد جو انتقال کر چکے تھے یا اداروں کو چھوڑ چکے تھے‘ ان کے نام بھی اس پروپیگنڈا مہم میں استعمال کئے گئے‘ جیسا کہ معروف امریکی ماہر قانون لوئس بی سوہن‘ جو 2006 ء میں انتقا ل کر گئے تھے

مگر بھارت کے ڈس انفارمیشن نیٹ ورک کی ویب سائٹس نے انہیں 2007ء میں یو این ہیومن رائٹس کونسل کے ایک اجلاس میں شریک قرار دیاتھا۔ یہی نہیں‘2011 ء میں واشنگٹن ڈی سی میں گلگت بلتستان کے موضوع پر ہونے والے ایک اجلاس میں بھی انہیں شریک بتایا گیا۔ماضی میں ایسے منظم جھوٹ میں ہٹلر کے وزیر جوزف گوئبلز کی مثال دی جاتی تھی مگر بھارت کے خفیہ اداروں اور ان سے جڑے افراد نے اس دور میں گوئبلز کو بھی مات دے دی ہے اور جس منظم انداز سے جھوٹ بولا ہے اس کی مثال عصر حاضر میں ملنا مشکل ہے۔انفارمیشن کے اس دور میں ڈس انفارمیشن کی یہ مہم نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔اس پروپیگنڈا مہم کا بنیادی ہدف پاکستان ہے مگر وہ ممالک‘ ادارے اور تنظیمیں جن کی ساکھ کو بھارتی نیٹ ورک نے اپنے گھناونے مقاصد کے لیے استعمال کیا‘ وہ بھی اس مہم کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہے چنانچہ بڑے پیمانے کی اس مہم کو وہ اہمیت نہ دینا جس کی فی الواقع ضرورت ہے یا بھارتی حکومت اور اداروں کو اس جعل سازی کی مہم میں شک کا فائدہ دینا‘ عالمی امن اور عالمی اداروں کی نیک نامی کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔

دورجدید میں‘ جب دنیا بڑی حد گلوبل ویلیج کا روپ دھار چکی ہے‘ انفارمیشن کے برق رفتار وسائل دنیا کے فیصلوں‘ ایکشنز اور نتائج پر اثر انداز ہونے میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اہلیت رکھتے ہیں‘اس لیے دنیا کو ڈس انفارمیشن کے معاملے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اس مقصد سے اگرچہ کئی عالمی ادارے کام کر رہے ہیں‘ مگر ذمہ داروں کا تعین اور ان رپورٹوں پر ایکشن کا کوئی موثر نظام تاحال سامنے نہیں آیا۔بھارت اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے اداروں کا نام استعمال کرکے تاریخ کی ایک بڑی ڈس انفارمیشن اورپروپیگنڈا مہم چلا رہا تھا بلکہ تا یہ جاری ہے‘ یورپی یونین کے ادارے نے اپنی دوسری رپورٹ میں ان حقائق سے پردہ اٹھایا تھا مگر اس سے آگے کیا ہو گا؟ فی الحال کوئی نہیں جانتا۔

ای یو انفو لیب نے اپنی رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی تھیں ان میں کہا گیا کہ ”ہم انڈین کرانیکل کی سرگرمیاں دیکھ کر حیرت زدہ ہیں‘ جس نے ہماری رپورٹ اور ذرائع ابلاغ میں اس کی وسیع اشاعت کے باوجود نہ صرف 18سال سے اپنا آپریشن جاری رکھا بلکہ حال ہی میں ”ای یو کرانیکل“ کے نام سے ایک جعلی یورپی ادارہ بھی قائم کیا۔ یہ صورت حال پالیسی ساز حلقوں کے لیے ایک تحریک ثابت ہونی چاہیے کہ وہ اداروں کی ساکھ خراب کرنے والی ان حرکتوں کے خلاف مناسب تعزیرات کے فریم ورک پر خلوص نیت سے غورشروع کریں یہاں اہم سوال یہ ہے کہ اس جانب دنیا کب سنجیدگی سے متوجہ ہوگی؟۔
تحریر:-اصغر علی شاد
Shad_Asghar@yahoo.com

Comments are closed.