اسلام آباد ( خبردارنیوز ) سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے ہماری
آدھی سے زائد زندگی ڈکٹیٹرشپ میں گزری
جہاں اظہار رائے کی کوئی گنجائش نہیں تھی ،اورکورٹ رپورٹنگ
کا بنیادی اصول یہ بھی ہے،بڑے سے بڑا ہی الزام کیوں نا ہو قانون کی نظر میں وہ معصوم تصور ہو گا ،
کورٹ رپورٹرز ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوے جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ ایک تنقید یہ بھی ہوتی ہے کہ
جسے میں نہیں پسند کرتا اسے ریلیف کیوں دوں ججوں کو آزاد ہونا چاہیے ،
انہوں نے کہا کہ ایک جج آزاد ہو اس نے حلف لیا ہے اور جتنی مرضی تنقید ہو جائے وہ اس کا اثر لیتا ہے تو
اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے
انکے مطابق اظہار رائے بہت بڑی چیز ہے اس کو دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے،اس ڈیجیٹل دور میں
لوگ خود ایکسپوز ہوتے ہیں،
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جوڈیشری کو تنقید سے بھی نا گھبرانا چاہیے نا خائف ہونا چاہیے نا کوئی جج
خائف ہو سکتا ہے ،
انکے مطابق کورٹ رپورٹرز صرف ادارے کے لیے رپورٹنگ نہیں بلکہ وی لاگ بھی کررہے ولاگز میں
کمرشل مفادات بھی ہیں اب دیکھنا ہے وہ کیسے بیلنس ہو کر چلتے ہیں
سچ ہر کسی کو پتہ ہے لیکن ہر کسی نے اِسے دبانے کی کوشش کی اور دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئے،
میرے بارے کسی نے کہا وہ تو واٹس ایپ پر کسی سے رابطے میں رہتا ہے،
کبھی کسی نے مجھے فلیٹ دلوا دئیے کبھی کوئی فرق نہیں پڑا ہم اچھے یا برے ہیں پبلک پراپرٹی ہیں ، اگر
اظہار رائے کی قدر ہوتی تو 1971 میں پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا،
مغربی پاکستان کے لوگوں کو ایک منفرد تصویر دکھائی گئی
جسٹس کے مطابق یہ سوال ہمیں خود سے پوچھنا ہے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں آج ہم اپنی مرضی کے فیصلے
بھی چاہتے ہیں گفتگو بھی چاہتے ہیں جمہوری معاشرے میں جہاں آئین کی بالادستی ہو وہ اظہار رائے پر قدغن
نہیں ہونا چاہیے ،
Comments are closed.