کوئٹہ ( عصمت سمالانی سے ) ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان اور صوبائی حکومت کے مزاکرات کا
دوسرا دور بھی بغیر نتیجے کے ختم ہوگیا
جس کے بعد ینگ ڈاکٹرز نے کور کمیٹی اجلاس طلب کرنے پر غور شروع کردیا
گذشتہ سال نومبر میں کوئٹہ کے ریڈ زون سے پولیس کی جانب سے 19 ڈاکٹروں کی گرفتاری کے بعد
بلوچستان حکومت اور ینگ ڈاکٹرز کے درمیان اختلافات میں شدت آگیاتھا
جس پر ینگ ڈاکٹرز پہلے مرحلے میں او پی ڈیز اور آپریشن تھیٹرز بند کردیے تھے
لیکن دسمبر میں گرفتار ڈاکٹروں کی رہائی کے بعدینگ ڈاکٹرز نے اپنا احتجاج جاری رکھتے ہوے سول ہسپتال
کوئٹہ میں سڑک پر او پی ڈیز لگاکر مریضوں کا دیکھنا شروع کردیاتھا
اس موقف کے ساتھ کہ ہسپتال میں ادویات نہیں ہیں اس وجہ سے وہ سڑک پر او پی ڈیز کرنے پر مجبور ہیں
تایم اس سال 20 جنور ی کو کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹرز کے ساتھیوں پر لاٹھی چارج اور گرفتاری کے بعد صوبائی
حکومت اور ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا
مزاکرات کا دوسرا دور بھی نتیجہ خیز ثابت نا ہوسکا
ینگ ڈاکٹرز نے مزاکرات کا دوسرا دور کامیاب نا ہونےپر کور کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے پر غور شروع
کردیا ینگ ڈاکٹرز نے سڑک پر جاری او ہی ڈی بھی ختم کردی
ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج کا سلسلہ گزشتہ 3 ماہ سے جاری ہے –
ینگ ڈاکٹرز کا موقف ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور دیگرسہولیات کی سخت کمی ہے جس کے باعث
اکثر اوقات سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور مریض دست وگریبان رہتےہیں
تاہم حکومت کا موقف ہے کہ ینگ ڈاکٹرز کے بہت سے مطالبات پورے ہوچکے ہیں
لیکں تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ اس وقت موجودہ حکومت کے لیے پوراکرنا مشکل ہے
اس سلسلے میں صوبائی سیکرٹری صحت نورالحق بلوچ نے خبردار نیوز کوبتایا ہے کہ محکمہ صحت میں
ڈاکٹرز ،نرسز اور دیگراسٹاف سمیت سرکاری ملازمین کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ ہے
اور تنخواہوں میں اضافے کی صورت میں ہرسال محکمہ صحت کو 7 ارب روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا
ہوگا جو کہ صوبے کے موجودہ بجٹ میں ممکن نہیں ہے
Comments are closed.