اسلام آباد وزیراعظم عمرا ن خا ن نے کہا ہے کہ فراخ دلی کا بینک بیلنس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، پاکستان افغان امن عمل کیلئے جو کچھ کرسکتا ہے، کر رہا ہے، حکومت اور سیکیورٹی فورسز ایک پیج پر ہیں، دعا سے افغانستان میں امن مذاکرات کامیاب ہوں، ملک میں دہشتگردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں۔ پاکستان میں 40 سال سے مقیم افغان مہاجرین سے متعلق عالمی کانفرنس سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان کے لوگوں کے گزشتہ 20 سال معاشی لحاظ سے بہت سخت تھے، فراخ دلی کا بینک بیلنس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، آپ? بنی نوع انسان کے اتحاد پر یقین رکھتے تھے، اپنا گھر چھوڑنا انسان کیلئے بہت مشکل فیصلہ ہوتا ہے، افغان بچے پاکستانی ٹیم کو کرکٹ کھیلتا دیکھتے تھے، افغان مہاجرین کے بچوں نے پاکستان میں کرکٹ کھیلنا سیکھی، افغانستان کی کرکٹ ٹیم آج عالمی درجہ بندی میں شامل ہوچکی۔وزیراعظم کا کہنا تھا نائن الیون کے بعد اسلام اور دہشتگردی کو ساتھ جوڑا گیا، سیاسی رہنماؤں نے ووٹوں کیلئے لوگوں کو تقسیم کیا، دل سے دعا ہے افغانستان کے امن مذاکرات کامیاب ہوں، پاکستان نے افغان امن کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے، ماضی میں حالات جیسے بھی رہے ہوں، ہم سب اب افغانستان میں امن چاہتے ہیں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔عمران خان نے مزید کہا بھارت کے متنازعہ قانون پر توجہ نہ دی گئی تو ہمارے لیے بھی مسائل ہوں گے، بھارتی متنازعہ قانون سے مہاجرین کا بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوگا، بی جے پی کے لیڈر مسلم مظاہرین کو پاکستان جانے کا کہتے ہیں، بھارت میں 20 کروڑ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، بھارتی آرمی چیف کہتا ہے پارلیمنٹ کہے تو آزاد کشمیر پر قبضہ کرسکتے ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر سخت تشویش ہے، یہ وہ بھارت نہیں جس کو میں جانتا تھا، یہ نہرو اور گاندھی کا بھارت نہیں ہے، بی جے پی کا نظریہ نازیوں سے متاثر ہے، اقوام متحدہ نے توجہ نہ دی تو مستقبل میں یہ بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھرے گا۔ قبل ازیں سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے کہا پاکستان کی فراخ دلی دہائیوں پر محیط ہے، پاکستان اور ایران مہاجرین کو پناہ دینے والے دنیا کے بڑے ممالک ہیں، پاکستان مہاجرین کو پناہ دینے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، پاکستان نے افغان مہاجرین کیلئے دروازے کھلے رکھے، پاکستان کی خدمات کے اعتراف میں عالمی تعاؤن بہت کم ہے، عالمی برادری کو آگے آنا چاہیئے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے کہا افغان مسئلہ صرف امن سے ہی حل ہو سکتا ہے، افغانستان میں ابھی بھی خانہ جنگی مکمل ختم نہیں ہوئی، پاکستان اور ایران خطے کے 90 فیصد مہاجرین کی کفالت کر رہے ہیں، مہاجرین کیلئے اقدامات کو سراہتے ہیں، پاکستان افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، پاکستان 40 سال سے لاکھوں مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہا ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا پاکستان نے 50 لاکھ مہاجرین کو پناہ دی، مہاجرین کو اسلامی اقدار کے مطابق پناہ دی، ہر مہاجر کی اس کانفرنس سے امیدیں وابستہ ہیں، کوئی بھی ملک اس مسئلے سے اکیلے نہیں لڑسکتا، مسائل کے باوجود لاکھوں مہاجرین کو سہولتیں مہیا کیں۔وزیر خارجہ نے کہا افغانستان میں امن اور مسائل کا حل ناگزیر ہے، پاکستان اور افغانستان کا تعلق مشترکہ مذہب ثقافت پر قائم ہے، پاکستان 40 سال سے افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہا ہے، مہاجرین کی واپسی کے روڈ میپ پر عالمی برادری سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان مہاجرین کو اس برس بھی کانفرنس سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کا تعلق مشترکہ مذہب، ثقافت اور اقدار پر قائم ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم آج بھی 30 لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہے ہیں اور یہ کوششیں مہمان نوازی کے اسلامی اصولوں پر مبنی ہیں۔انہوں نے کہا پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کو صحت، تعلیم اور فنی تربیت کی سہولیات مہیا کرتا آرہا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھے گا، مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے افغانستان میں پائیدار امن بنیادی شرط ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور افغانستان معاشرے میں بحالی کے لیے عالمی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے 40 سال یکجہتی کے لیے ایک نئی شراکت داری‘ کے عنوان سے پاکستان میں 40 برس سے مقیم افغان مہاجرین کے حوالے سے عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے۔2 روزہ عالمی کانفرنس 17 اور 18 فروری کو جاری رہے گی جس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور وزیراعظم عمران خان سمیت اہم ملکی اور عالمی شخصیات شریک ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ہائی کمشنر فلپوگرینڈی، تقریباً 20 ممالک کے وزرا اوراعلیٰ حکام جو دنیا بھر سمیت پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی مددکررہے ہیں، کانفرنس میں شریک ہیں۔واضح رہے کہ یہ عالمی کانفرنس کا انعقاد اہم موقع پر کیا گیا ہے جب افغانستان میں امن کے لیے کوششیں تیز ہوئیں ہیں اور ان میں اہم پیشرفت ہوئی ہے
Comments are closed.