وزیراعظم عمران خان جے یوآئی کےسربراہ مولانافضل الرحمان سے مذاکرات پرآمادہ ہوگئے ،وزیردفاع پرویزخٹک کی قیادت میں ٹیم جےیوآئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کرکے مذاکرات کرے گی
(حکومت کامولانافضل الرحمان سےمذاکرات کےلئےٹیم تشکیل دینے کافیصلہ)
(مولانافضل الرحمان نے مذاکرات کی حکومتی پیشکش مسترد کردی)
دھرنوں سے حکومتیں نہیں جاتیں ،ہمارا 126 دنوں کا تجربہ ہے،پاکستان کی جتنی سیاسی جماعتیں ہیں سب نے مل کر نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جو واضح کہتا ہے کہ ملیشیا کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہونی چاہیے،شاہ محمود قریشی
مذاکرات صرف وزیراعظم عمران خان کے استعفے کے بعد ہی ہوسکتے ہیں، مذاکرات کےلیے ہمارے دل اور دروازے کھلے ہیں ،اگر کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ساتھ لے کر آئے،فضل الرحمان
اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمران خان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات کےلیے راضی ہوگئے ہیں۔وزیراعظم نے تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ جے یو آئی کے ساتھ سیاسی حل کےلیے مذاکرات میں کوئی مضائقہ نہیں۔عمران خان نے آزادی مارچ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ذمے داری وزیر دفاع پرویز خٹک کو سونپ دی ہے۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ آزادی مارچ کے مسئلے پر وزیر دفاع کمیٹی قائم کریں اور اپنی مرضی سے ممبران کا چناؤ کریں۔کور کمیٹی کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ، ملکی سیاسی و معاشی معاملات سمیت دیگر اہم امور پر مشاورت کی گئی۔وزیراعظم نے کور کمیٹی کو اپنے دورہ چین، ایران اور سعودی عرب پر اعتماد میں لیاعلاوہ اذیںجمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مذاکرات صرف وزیراعظم عمران خان کے استعفے کے بعد ہی ہوسکتے ہیں۔پارٹی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں قائم کمیٹی سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مذاکرات کےلیے ان کے دل اور دروازے کھلے ہیں ،اگر کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ساتھ لے کر آئے۔جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ وزیراعظم کے استعفے سے کم پر کسی سے بھی، کسی بھی قسم کے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کور کمیٹی کے اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیادریں اثناءحکومت نے مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کیلئے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھرنوں سے حکومتیں نہیں جاتیں ،ہمارا 126 دنوں کا تجربہ ہے،پاکستان کی جتنی سیاسی جماعتیں ہیں سب نے مل کر نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جو واضح کہتا ہے کہ ملیشیا کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہونی چاہیے،برطانوی جوڑا یہاں دورے پر آیا ہوا ہے ہمارا امیج بہتر ہو رہا ہے،لٹھ برداری کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی،پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تیرہ ماہ معاشی مسائل سے گزر کر اسے سنبھالنے کی کوشش کی ہے،ابھی معیشت کے حوالے سے حوصلہ افزا سگنل مل رہے ہیں،وزیر اعظم جب چاہیں کسی کا بھی قلمدان تبدیل کر سکتے ہیں ،یہ جمہوری عمل کا حصہ ہے ،سعوی عرب اور ایران سے ہماری توقعات سے زیادہ رسپانس ملا ہے ،اب جنگ کے بادل چھٹتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، امریکہ کے ساتھ ہمارا تعلق اور گفت و شنید ہے اس وقت صدر ٹرمپ کسی کی کال کے شدت سے منتظر ہونگے وہ عمران خان کی ہو گی،شام کی صورتحال کافی عرصہ سے خراب ہے کافی قوتوں نے مصالحت کی کوشش کی ،ترکی کے بارڈر کے حوالے سے تحفظات ہیں ،ترکی ہمارا دوست ہے پاکستان کا رول مثبت رہا ہے اور مثبت ہی رہے گا ۔ان خیالات کا اظہار وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاش اعوان کے ہمرا ہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ پاکستان ایسا اسلامی ملک ہے جس کے دونوں اسلامی ممالک ایران اور سعودی عرب دونوں سے برادرانہ تعلقات ہیں۔انہوںنے کہا کہ آپ کے علم میں ہے کہ آئیل ٹینکر پر میزائل حملہ ہوا تو خطے میں خاصی کشیدگی پیدا ہو گئی،ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان نے فیصلہ کیا کہ اگر کشیدگی بڑھی تو نہ صرف خطہ بلکہ پوری گلوبل اکانومی متاثر ہوتی جس کا اثر پاکستان سمیت دنیا بھر پہ پڑتا،اس سوچ کے پیش نظر وزیر اعظم ایران تشریف لے گئے ایران کے صدر اور سپریم لیڈر دونوں سے اچھی نشستیں ہوئیں،ایران نے واضح کہا کہ وہ محاذآراء کے خواہاں نہیں اور مذاکرات کے حامی ہیں،اس مثبت رویے کے پیش نظر ہم سعودی عرب گئے وزیر اعظم عمران خان کی جو نشستیں ہوئیں ان میں بھی مثبت رسپانس ملا۔ انہوںنے کہاکہ ہم پر امید ہیں کہ اب جنگ کے بادل چھٹتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، گزشتہ روز ہونے والی نشست حوصلہ افزا تھی۔انہوں نے کہا کہ ہم سفارتی ذرائع کو ترجیح دیں گے،وزیر اعظم عمران خان نے دونوں نشستوں پر قیادت کا شکریہ بھی ادا کیا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا اور انہوں نے ہمارے موقف کی حمایت کا عندیہ دیا،ابھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں فاروق عبداللہ جو پہلے ہی حراست میں ہیں ان کی بیٹی کو گرفتار کر لیا گیا،بھارت نے پوسٹ پیڈ فون پر ایس ایم ایس کی سہولت کو چوبیس گھنٹے کے اندر معطل کر دیا گیا،ہم نے پارلیمانی سفارتکاری کا آغاز کر دیا ،آئی پی یو کے صدر اور سیکرٹری کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو اٹھایا گیا۔انہوںنے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا،ہم ایک سیاسی جماعت ہیں ہمارا رویہ جمہوری ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے پرویز خٹک صاحب کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جو مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کریگی۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی رویے اپنانے چاہیئں، مولانا فضل الرحمٰن کی کسی سیاسی بات میں وزن ہوا تو ہم سننے کو تیار ہوں گے اور اگر کوئی معقول راستہ نکل سکتا ہے تو ہم وہ راستہ نکالنے کو ترجیح دیں گے، یہ اس لیے نہیں کہ ہمیں کسی قسم کا خوف ہے، اگر کسی کو غلط فہمی ہو کہ ہمیں کوئی خوف ہے تو ایسا نہیں ہے،دھرنوں سے حکومتیں نہیں جاتیں ہمارا 126 دنوں کا تجربہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ 27 اکتوبر وہ منحوس دن ہے جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا تھا ہم وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر اسے کشمیریوں کے ساتھ احتجاج یکجہتی کے طور پر منا رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تیرہ ماہ معاشی مسائل سے گزر کر اسے سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ابھی معیشت کے حوالے سے حوصلہ افزا سگنل مل رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ دورہ چین کے دوران سرمایہ کاری میں اضافے کا سگنل ملا،لوکل گورنمنٹس اپنی معیاد پوری کر چکی ہیں لہذا کور کمیٹی کے اجلاس میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جہاں ہماری حکومت ہے صوبائی وہاں ہم فروری سے انتخابات کروانے جا رہے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہاکہ ہم ان مشائخ، علماء کرام کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اپنی حمایت کا یقین دلایاانہوںنے کہاکہ الحمدللہ ہمیں دونوں ممالک سے ہماری توقعات سے زیادہ رسپانس ملا ہیایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے کہ جب چاہیں کسی کا قلمدان تبدیل کر دیں اور یہ جمہوری عمل کا حصہ ہے
Comments are closed.