کوئٹہ ( خبردار ڈیسک ) بلوچستان کے
دارلحکومت کوئٹہ میں خواتین پر پولیس سے
سرعام تشدد کی ہے جس پر شہریوں نے شدید
تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے
مذکورہ پولیس اہلکاروں کو معطل کرکے
انکے خلاف سخت کاروائی کرنے کا مطالبہ
کیا ہے
پولیس زرائع کے مطابق زینب نامی لڑکی کے
اغواء ہونے کی ایف آئی آر اسکے والد نے
20 روز قبل قائد آباد تھانہ میں درج کرائی
تھی، جس پر کاروائی کرتے ہوے پولیس نے
پیر کے روز کوئٹہ کے مشن روڈ سے والدین
کی نشاندہی پر پولیس نے لڑکیوں کو پولیس وین میں بیٹھایا،
زرائع کے مطابق پولیس کی گاڑی میں بیٹھائی جانیوالی لڑکی زینب اور اسکی 2 سہیلیاں ہیں،اور یہ کہ لڑکی
زینب اپنی رضامندی سے سہیلیوں کے ساتھ رہے رہی تھی،
پولیس ذرائع نے گرفتاری کی وضاحت کرتے ہوے کہا ہے کہ ایڈیشنل ایس ایچ او کو لیڈی پولیس کے ہمراہ
لڑکیوں کی حراست میں لینا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا جس پر ایس ایس پی کوئٹہ نے ایڈیشنل ایس ایچ او کو
معطل کرنے کے بعد انکوائری حکم دے دیا،
پولیس کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غیر ذمہ دارانہ رویے پر
ایڈیشنل ایس ایچ او نوید مختار اور مذکورہ اہلکاروں کو معطل کردیا ہے،
دوسری جانب وزیراعلئ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا کوئیٹہ پولیس کی جانب سے خواتین پر تشدد کے
واقعہ کا سختی سے نوٹس لیتے ہوے آئی جی پولیس کو واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف فوری
کاروائی کا حکم دیا ہے
وزیراعلی نے پولیس اہلکاروں کو معطل اور واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرنے کی
ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ تمام شہریوں خاص طور سے خواتین کا احترام پولیس پر لازم ہے۔
وزیراعلئ بلوچستان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر خواتین کی گرفتاری
ضروری تھی تو لیڈی پولیس اہلکار کے زریعہ کاروائی کی جاتی۔
بقول وزیراعلئ کے کہ پولیس کا یہ رویہ قطعی طور پر قابل قبول نہیں ۔پولیس پر عوام کے اعتماد کی بحالی اہم
ہے .
واضع رہے کہ پیر کے روز کوئٹہ شہر کے مرکزی حصے مشن روڈ پر پولیس اہلکاروں نے تین خواتین پر نہ
صرف سرعام تشدد کی ہے بلکہ انہیں انتہائی غیراخلاقی اور بلوچستان کے قبائلی روایات کی پامالی کرتے ہوے
پولیس وین میں ڈال دیا ہے جسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے
Comments are closed.