Khabardar E-News

اردو کے عظیم شاعر احمد فراز (81 ویں سالگرہ)

377

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

تحریر: نعمان بدر فاروقی
احمد فراز14 جنوری 1931 میں کوہاٹ میںپیدا ہوئے۔ شاعری وراثت میں ملی۔ آپ کے والد سید محمد شاہ برق اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ابھی ایڈورڈز کالج پشاور میں زیر تعلیم تھے کہ ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنا شروع کیا۔ بی اے میں تھے کہ پہلا مجموعہ کلام تنہا تنہا شائع ہوا۔ تکمیل تعلیم کے بعد ریڈیو سے معاہدہ منقطع کر کے یورنیورسٹی میں لیکچر ر ما مور ہوئے۔ اس ملا زمت کے دوران میں دوسرا مجموعہ ’’درد آشو ب‘‘ چھپا جس پر آدم جی ادبی ایوارڈ ملا۔ یو نیورسٹی کی ملا زمت کے بعد پاکستان نیشنل سنٹر پشاور کے ڈائریکٹر مقررہوئے۔ 1976 میں اکاومی ادبیا ت پاکستان کے پہلے سر براہ بنا ئے گئے ۔ جبکہ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں سیاسی وجوہ سے جلا وطنی اختیار کر نا پڑی۔ احمد فراز نے غزل اور نظم دونوں اصنا ف میں پرانے استعاروں اور تشیہیوں میں جدید رنگ پیدا کیا۔ آپ کی شاعری کے13 مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جس میں تنہا تنہا ، درد آشوب، شب خون، نا یا فت، میرے خواب ریزہ ریزہ، جا ناں جاناں، نابینا شہر میں آئینہ ، بے آواز گلی کو چوں میں حروف ہیں ۔ علا وہ ازیں نظموں کے تراجم سویڈن، یو گو سلا ویہ اور ہالینڈ کی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ آپ کی شاعری کا انتخا ب انگریز ی میں ترجمہ ہو کر ’’ونڈ ان دی ولڈ رینس ‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے ۔احمد فراز پاکستان کے وہ واحد شاعر تھے جو خواص و عا م میں سب سے زیادہ پڑھے جاتے رہے ہیں اور وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ ان کے قارئین کی تعداد اب بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ ان کے قاریوں کی تعداد نوجوانوں ، بزرگوں ، عورتوں اور مردوں میں نما یاں طورپر نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شاعری میں ایک منفرد انداز رکھتے تھے۔ ان کے کلام میں ایک خاص قسم کی معنو یت اور ان کی طرز ادا میں عجیب و غریب دلکشی پائی جاتی ہے۔ فراز کی ہمہ گیر و ہمہ رنگ طبعیت نے کسی خاص رنگ سخن پر قناعت نہ کر کے مشاہیر شعرائے متقد مین و متاخرین میں سے ہر ایک کے انداز سخن کا پسندیدہ نمو نہ پیش کیا ہے۔ چنانچہ ان کی شاعری میں کہیں میر ؔکا درد ہے تو کہیں سوداؔ کا دبد بہ۔ کسی مقام پر فغاںؔ کی رنگینی ہے توکسی جگہ سوز کیؔ سادگی۔ کہیں واقعا ت میں جراتؔ کی سلاست و حقیقت نویسی سے کام لیا گیا ہے تو کہیں ترکیب الفاظ اور انداز بیان میں انشاء کا طنطنہ اور جبروت صرف ہوا ہے۔ اس لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اس کے کلام میں شاعری ہے۔ شعر کی تلاش نہیں۔ اس کے کلام میں خیال اور جذبے کا قالب اور شعراور لبا س الگ دکھائی نہیں دیتے بلکہ آپس میں پیو ستہ ہیں۔ اور فرازؔ اس لیے اس مقام پر پہنچے کہ انہوں نے مندرجہ بالا خصوصیا ت کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری کے انفرادی نقوش پیدا کر نے میں رنگ و روپ، صورت شکل، سجاوٹ اور نکھار کو اپنی شاعری میں خاص طور پر جگہ دی ہے۔ یہ فرازؔ کی خاص سلیقہ مندی ہے کہ وہ اپنی شاعر کی فضا میں رنگ و نکھا ر کا ذکر ایسے اہتمام سے کر تے ہیں کہ قاری اس فضا میں کھو کر رہ جا تا ہے۔ رنگ صورت و شکل اور سجاوٹ ہی کی بناء پر ایک بڑے شاعر نے فرازؔ کی شاعری کو ایک ’’تصویر خانہ یا پکچر گیلری‘‘ قرار دیا ہے۔ جسے فراز ؔنے اپنے پہلے مجموعہ کلام’’تنہا تنہا ‘‘ میں کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے۔
کیا رخصت یار کی گھڑی تھی
ہنستی ہوئی رات رو پڑی تھی
ہم خود ہی ہوئے تباہ ورنہ
دنیا کو ہماری کیا پڑی تھی
یہ زخم ہیں ان دنوں کی یادیں
جب آپ سے دوستی بڑی تھی
جائے تو کدھر کو تیرے و حشی
ز نجیر جنوں کڑی پڑی تھی
ور یوزہ گر حیا ت بن کر
دنیا تری راہ میں کھڑی تھی
غم تھے کہ فراز آندھیاں تھیں
دل تھا کہ فراز پنکھڑی تھی
یہ اشعار اس بات کا ثبو ت ہیں کہ فراز کی شاعری ایک تصویر خانہ ہے۔ اس تصویر خانہ میں نظر آنے والی تمام تصویریں فراز کے جمالیاتی ذوق کی دلیل ہیں۔ ان میں فراز کے ذوق کی اعلی قدریں موجو دہیں۔ ان میں ایک انفرادیت ہے۔ اردو کے کسی دوسرے شاعرنے اس قسم کا جمالیاتی تصویر خانہ نہیں بنایا ہے۔
فراز کی شاعرانہ انفرادیت ان کے انداز و بیان کے لطیف سانچوں میں ہے۔ یہ شاعرانہ سانچے ان کی لطافت اور جمال پسندی کے مظہر ہیں اور یہ بات درست ہے کہ ان کے وجد ان اور جمالیا تی شعور کی ایک خاص شخصیت ہے۔ فراز ایک خوش ذوق، جمال پسند اور لطا فت پسند شاعر ہیں۔ وہ شد ت جذ با ت پر لطافت جذ با ت کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان کی شاعری کا تمام تر سر مایہ یہی لطا فت و نفا ست ہے۔ الفاظ و تراکیب کے سبک اور خوشگوار سانچوں کے علاوہ لے کاری اور غنائیت ان کی شاعری کا امیتاز خاص ہے۔ ان کی بحریں عموماً مو سیقیت کے اس رنگ کی نما ئندگی کر تی ہے جن میں شدت اور جوش کی بجائے غنو دگی ، سکون اور لطیف غنائیت پائی جاتی ہے۔ ایک اور خاص بات جو خال خال ہی کسی شاعر میں نظر آتی ہے، تجربات و احسا سات کے مقابلے میں زبان اور طر ز ادا کو اہمیت دینا اور صورت کی خوبی اور شیری ں الفاظ و تراکیب کا سہارا۔۔۔ یہ بات فراز کے کلام میں ہمیں نمایاں نظر آتی ہے۔
فرازؔ کی شاعری درحقیقت نفیس الفاظ و تراکیب کی شاعری ہے۔ یہ وہ حسین الفاظ ہیں جن کو فارسی شاعری ان جذباتی حالتوں میں واسط کر چکی ہے جن کے خلوص اور سچائی میں شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ ان تراکیب و الفاظ کی صوتی خوش نمائی اپنا سکہ بٹھا چکی ہے۔ فراز کے کلا م میں جب یہ ترکیبیں پہلو بہ پہلو بیٹھتی ہیں تو اس سے خوش رنگی اور لطافت کا ایک ایسا نفیس نمو نہ تیار ہوجا تا ہے جس سے محفوظ نہ ہو نا شاید دشوار ہوگا۔فراز کے کلا م میں خوش صورت فارسی الفاظ و تراکیب کے جو بہار آفرین نمو نے ملتے ہی ں، ان کی کچھ شاخیں درج ذیل ہیں:
ابھی تل ہیں تصور میں وہ در و دیوار
بسیط دامن کہسار میں چناروں سے
کسے خبر تھی کہ عمروں کی عا شقی کا مال
دل شکستہ و چشم پر آپ جیسا تھا
کسے خبر تھی کہ اس وجلہ محبت تھا
ہمارا ساتھ بھی موج و حبا ب جیسا تھا
خبر نہیں یہ رقابت تھی ناخدائوں کی
کہ یہ سیا ست درباں کی چال تھی کوئی
دو نیم ٹوٹ کے ایسی ہوئی زمیں جیسے
مری اکائی بھی خواب خیال تھی کوئی
فرازؔ کی شاعری غم دوراں اور غم جاناں کا ایک حسین سنگم ہے۔ اور یہی چیز فراز کے کلا م میں نرمی، ہمواری، حلاوت، اعتدال و رنگینی ، تناسب توازان ،صوتی اور عضو ی اثرات، میٹھا میٹھا درد، بند ش کی چستی کا امتزاج اور نام کشا کش پیدا کر کے اسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ پھر یہ تمام عنا صر مل کر فراز کے شاعرانہ مزاج کاحصہ بن کر اس کی تربیت کر تے ہیں اور اس تربیت کے نتیجے میں وہ رومانی اشعار تخلیق ہو تے ہیں تو پھر ان کی مقبولیت ہر خاص و عام میں یکساں ہو تی ہے کیونکہ یہ انہی کے اپنے دل کی داستان ہو تی ہے
سنا ہے لو گ اسے آ نکھ بھر کر دیکھتے ہیں
سواس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں۔

Comments are closed.