بلوچستان کے مسائل 70سالہ ہیں ایک دن یا ایک سال میں حل نہیں ہوسکتے بلکہ اس کیلئے نیک نیتی کی ضرورت ہےچھ نکات پرعملدرآمد کے حوالےسے مطمئن نہیں
بلوچستان میں ماضی اور موجودہ حکومت میں کوئی فرق نہیںصرف کپڑے تبدیل کئے گئے ہیں باقی لوگ تو وہی ہیںجھنڈا بدل کر نظریہ تبدیل نہیں ہوجاتا ،نجی ٹی وی سے گفتگو
کوئٹہ(آن لائن )بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت ماضی کی مرکزی حکومتوں کی روش پر چلتے ہوئے بلوچستان کو کالونی کی حیثیت سے سمجھ کر مسائل تا قیامت حل نہیں ہونگے اپوزیشن رویہ تبدیل کرے ہمارے ساتھ معاہدہ کرسکتے ہیں اور ہمیں یہ یقین دلائیں کیا پھر حکمرانی ملکر بلوچستان کو قربانی کابکرا بنا کر اس کی بھلی تو نہیں چڑائیں گے اپوزیشن صرف دور سے آواز دے رہی ہے کہ آو ہمار ے ساتھ احتجاج میں اس طرح نہیںہوسکتا مرکزی حکومت نے ہمارے چھ نکات تسلیم کو کیا کہ یہ بلوچستان کے مسائل حقیقی ہیں جنہیں عمل کرینگے بلوچستان نیشنل پارٹی نے ترقیاتی منصبوں سمیت تمام نکات پر مرکزی حکومت کے دستخطوں کو اپنی کامیابی کی پہلی اینٹ کی بنیاد رکھی ان خیالات کااظہارانہوں نے نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل پارٹی کا پچھلی حکومت کے دوران دوستانہ ہوتا تو ان کی طرف ہاتھ بڑھاتے لیکن نیشنل پارٹی پشتونخوا میپ اور مسلم لیگ (ن)کے دور اقتدار میں جس طرح ہمارے پارٹی کارکنوں کا قتل اوراغواءکے واقعات سمیت جوزیادتیاں کی گئی ہیں میں یہ کہنے پر حق بجانب ہوں گا کہ مشرف دور میں بھی اسی طرح کی ظلم ہم پر نہیں ڈھائے گئے جو ہماری ایک خواہش کمی تو انہوں نے اپنی دور اقتدارمیں دفنادیا چھ نکات کو پتہ نہیں لوگ کیا سمجھ بیٹھے ہوئے ہیں ملک بالخصوص بلوچستان میں یہ روایات رہی ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے حوالے سے دو ڑ لگ جاتی ہے کہ اقتدار مل جائے کتنی وزارتیں پورٹ پولیو ملیںگی تمام معاہدات اسی زمرے میں کئے جاتے ہیں یہاں تو پوری کی پوری اسمبلی وزیر رہی ہے کابینہ بھی اسمبلی ارکان کے تعداد کے برابر رہی ہے اس سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں بلوچستان نیشنل پارٹی نے ہمیشہ مسائل کے حل کا سوچا ہے اور اسی کیلئے جدوجہد کی ہے ہم نے مرکز کے سامنے چھ نکات کی شکل میں معاہدہ رکھا مرکز کے نمائندوں نے معاہدے پر دستخط کر کے بلوچستان کے 70سالہ مسائلہ کوخودتسلیم کیا یہ حقیقی اور اہم مسائل ہیں جنہیں حل کرنے ہونگے پی ٹی آئی کے مرکزی صوبائی قیادت کے دستخط اس بات کاغمازی کرتا ہے کہ ان مسائل کو حل کئے بغیر ہم بلوچستان کو ساتھ لیکر نہیں چل سکتے ہیں لاپتہ افراد کا مسئلہ ،افغان مہاجرین،فیڈرل سروسز میں بلوچستان کا کوٹہ،فارن سروسز،ترقیاتی منصوبوں سمیت تمام نکات پر دستخط ہماری کامیابی کی پہلی اینٹ کی بنیاد رکھی گئی اب اس پر عملدرآمد کی بات ہے بلوچستان کے مسائل 70سالہ ہیں ایک دن اور ایک سال میں بھی حل نہیں ہوسکتے بلکہ اس کیلئے نیک نیتی کی ضرورت ہے اس سے قبل جتنی بھی حکومتیں مرکز صوبے میں بنی ہیں ان کے ساتھ جو معاہدات ہوئیں ہیں ان میں بلوچستان کے ان حقیقی مسائل کو کبھی بھی رکھنا گوارا نہیں سمجھا اور نہ ہی مرکزی حکومتوں نے بلوچستان کے مسائل کو تسلیم کرنے اور سننے کو اہمیت نہ دی موجودہ حکومت کی جتنی بھی خامیوں کی بات کریں اور یہ کہوں کہ انہوں نے ہمارے جتنے مطالبات ہیں ان پر عملدرآمد کیا ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ہماری بات تو مانی اور ہم نے بارہاںان کے سامنے لاپتہ افراد کے معاملے کو اٹھا یا جس کے نتیجے میں 5ہزار ایک سو 28لاپتہ افراد میں سے 40لوگ بازیاب ہوگئیں وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے اہم پروجیکٹ شامل کرنے سمیت ان کی منظوری میںہم کامیاب ہوئیں ہیں ہم سی پیک کے نام پر بلوچستان کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے سازش کوکامیاب نہیں ہونے دینگے چھ نکات کے عملدرآمد سے مطمئن نہیں ہو مرکزیحکومت نے حزب روایت تسلیم دی گئی تو ہمارا گزار حکومت کے ساتھ نہیں ہوگا بلوچستان کے ماہی گیروں کی بد دعائیں آج ہمیں ملتی ہیں وفاقی حکومت کو ہمیں جتنا قصوروارٹھہرائیں مگر سب سے زیادہ قصور وار اور ذمہ دار ہمارے صوبائی نمائندے ہیں بلوچستان میں ماضی اور موجودہ حکومت میں کوئی فرق بتائیں صرف کپڑے تبدیل کئے گئے ہیں باقی لوگ تو وہی جھنڈا بدل کر نظریہ تبدیل نہیں ہوجاتا اور نا ہی نام اور نعرے بدل کر لوگوں کی سوچ کو تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے 2008سے لیکر اب تک وہی لوگ ہیں شاید چندایک موجود نہ ہو تو ہم کیسے یقین کرلیں کہ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومتوں میں فرق ہوگا نواز شریف کے دور حکومت میں کے پی کے کے سیاسی جماعتیں اور قوم پرستوں کوسی پیک روڈ کے افتتاح پر ہم نے کہاتھا کہ ماموںبنا کر چلے گئے ہیں گوادر ایئر پورٹ کس کیلئے بنارہے ہیں بلوچستان کے غریب عوام کو اتنی بھی حیثیت نہیں کہ لوکل بس میں کراچی تک سفر کریں وفاقی حکومت اگرماضی کی مرکزی حکومتوں کی روش پر چلتے ہوئے بلوچستان کو کالونی کی حیثیت سے سمجھ کر مسائل حل کرنے کی کوشش کرے گا توقیامت تک بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہونگے اس رویے سے نہ بلوچستان ترقی کرے گا نہ امن وامان بہتر ہوگابلوچستان میں جمعیت علماءاسلام (ف)کے اتحادی ہیں مرکز میں آزاد بینچوں پر ہیں اپوزیشن رویہ تبدیل کرے تو آئیں ہمارے ساتھ معاہدی کریں کیاپھر حکمرانی ملکر بلوچستان کو قربانی کابکرا بنا کر اس کی بھلی تو نہیں چڑھائیں گے ہمیں یقین دلائیں پھر ان کاساتھ دیکھتے ہیں اپوزیشن کو ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنا پڑے گا صرف دور سے آواز دیکھ کر آؤں ہمارے جلوس اور احتجاج میں شامل ہوجائیں اسطرح نہیں ہوسکتا ہے
Comments are closed.