کوئٹہ ( خبردار ڈیسک ) سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان نے بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف ایک بار پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اورحزب ااختلاف کے ارکان کو مشہورہ دیا ہے کہ وہ حکومت کی گود سے نکل کر عوام کا ساتھ دیں –
سابق وزیراعلی نے اپنے ٹوئیٹ میں حزب اختلاف اراکین کو حکومت کی گود سے باہر نکلنے کا مشورہ دیدیا اور سوال کیا ہے کہ وہ اپوزیشن ممبران کہاں ہیں جو ہمارے دور میں احتجاج پر بیٹھے رہتے تھے،
جام کمال خان کے مطابق گوادر کے عوامی نمائندے کو احتجاج میں بیٹھنا چاہیے ناکہ کوئٹہ اور اسلام آباد میں عیش و آرام کی زندگی گزارے
تاہم اس سلسلے میں ابھی تک حزب اختلاف باالخصو ص بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء بلوچ کی جانب سے کوئ جواب نہیں دیاگیا ہے لیکن ٹوئٹرپر متحرک لوگوں نے ملاجلا ردعمل دیا ہے
ایک صارف نے لکھا ہے کہ جام صاحب معذرت کے ساتھ مجھے نہیں لگتا کے بلوچستان کے عوام ترقی پسند ہیں۔
اگر 1980 میں دوبئی کے بدو شیخ راشد کو ترقی کی اجازت نا دیتے تو آج دوبئی بھی گوادر جیسا ہوتا لیکن وہ لوگ بلوچستان کے لوگوں کی طرح بیوقوف اور فتنہ پرست نہیں تھے۔
نعیم احمد نے لکھا ہے کہ اسمبلی میں بیٹھے سب ممبرز آپ کی طرح مفاد پرست ہی ہیں۔ آپ سب نے مل کے اس صوبے کو لوٹا ہے۔
جام صاحب آپ تو اتنے شدید مفاد پرست ہو کہ آپ نے کوئی پارٹی نہیں چھوڑی ہر بارٹی میں رہے ہو۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کس کے پاوں پکڑو گے۔
مکرانی بلوچ کے نام ایک ٹوئیٹ میں کہا گیا ہے کہ جس سے بھی اقتدار چین لی جاتی ھے تو اسکے ھوش ٹہکانے لگ جاتے ھیں جب وہ اقتدار پے ھوتا ھے تو وہ گونگا بہرا اور اندھا بن جاتاھے
لیکن تو تو اتنے ظالم تھے کے بلوچ نسلی کشی کو جاہز کرار دیتے تھے آے روز اسٹوڈنٹ سے لیکر عام شہری اسمبلی کے اگے احتجاج میں بیٹتے تھے
ایم احمد لکھتے ہیں کہ میں حیران ہوتا ہوں ایسا کیا ہوتا ہے۔ ایک ہی انسان جب حاکم ہوتا ہے تو اسکی سوچ اور ہوتی ہے اور جب وہ حکمرانی سے نکل جاتا یے تو پھر اسے سارے غیور و مظلوموں کی یاد آتی ہے۔
دولت خان نے لکھا ہے کہ قائد محترم ثناء بلوچ کو اب فنڈز ملے ہیں اسکیمات ملے ہیں اب ان کو دھرنے کہاں یاد آئی گی
آپ محترم نے بلوچستان میں ریکارڈ ترقیاتی کام کئے جس پر ہم آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں
میر ارشد نے جام صاحب کو خاموش رہنے کا مشہورہ دیا اور کہا ہے کہ خاموشی عبادت ہے، آپ کے دور کو ابھی تک 3 ماہ ہوئے ہیں۔ اپنے دور کے پولیس گردی مار کٹائی یاد کر لیں۔
Prev Post
Comments are closed.