Khabardar E-News

چین میں پھنسے پاکستانی طلبہ کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم

114

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

اسلام آباد: والدین نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران سے آنے والے پاکستانی زائرین کی طرح چین میں پھنسے پاکستانی طلبہ کو واپس لاکر قرنطینہ میں رکھا جائے جبکہ عدالت نے یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد چین میں پھنسے پاکستانیوں اور طلبہ کو واپس لانے کے کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صورت حال گھمبیر ہے، عدالت کورونا وائرس معاملے کو کابینہ میں اٹھانے پر سراہتی ہے۔

والدین نے روتے ہوئے کہا کہ ایران سے آنے والے ہزاروں زائرین کے لیے کوئٹہ میں الگ جگہ بنا دی گئی، ہمارے بچے بھی اسی طرح یہاں لا کر کسی بھی جگہ رکھ لیں، ہمارا کوئی احساس کرنے والا نہیں،حکومت کچھ نہیں کر رہی، تمام ملکوں نے اپنے بچے نکال لیے لیکن ہمارے بچوں کو نہیں نکالا جا رہا، ایران سے آنے والے زائرین کو کوئٹہ میں 15 دن رکھا جاتا ہے، کیا ہمارے بچوں کو چین سے واپس لا کر 15 دن تک علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا۔

وکیل نے کہا کہ طلبہ کے والدین چاہتے ہیں کہ انکے بچے رمضان سے پہلے واپس آ جائیں۔ نمائندہ وزارت خارجہ نے کہا کہ آئندہ منگل کو کابینہ کے اجلاس میں اس بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا بچوں کو واپس لانے سے متعلق کوئی تاریخ دی جا سکتی ہے؟۔ ڈی جی وزارت خارجہ نے کہا کہ سمری کابینہ کو بھیجی جا چکی اگلی کابینہ میٹنگ میں اس سے متعلق فیصلہ ہو جائے گا۔

والدین نے کہا کہ عدالت اپنے فیصلے میں لکھ دے کہ وفاقی کابینہ منگل کے اجلاس میں فیصلہ کرے، ہمیں حکومت پر کوئی اعتماد نہیں ہے، اسی حکومت کے خلاف ریلیف لینے عدالت آئے ہیں، ایران اور چین سے آنے والے پاکستانیوں سے متعلق ایک ہی پیمانہ مقرر کرنے کی ہدایت کی جائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ والدین کا دکھ ہے کہ ایران سے زائرین واپس آرہے ہیں چین سے کیوں نہیں، یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے لیکن یہ عدالت بچوں کے والدین کو مطمئن کرنے کے لئے سن رہی ہے، عدالت ایسا حکم نہیں دے سکتی جس پر عمل نہ ہو۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چین میں موجود پاکستانی طلبہ کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 مارچ تک ملتوی کردی۔

Comments are closed.