کراچی: سپریم کورٹ نے کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کراچی شہر کا ازسرنو جائزہ لینے سے متعلق معاملے کی سماعت کی۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے ہی صوبائی اداروں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت پر بھروسہ کیا تو کچھ نہیں ہو پائے گا، متعلقہ ادارے سب اچھا ہی کی رپورٹس دیتے رہیں گے، عدالتی ماہرین پر مشتمل اعلی اختیاری کمیٹی بنا دی جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بتائیں کمیٹی کرے گی کیا، اینٹی انکروچمنٹ سیل ہے تو صحیح، کمیٹی بنانا ہمارا کام نہیں، حکومت چاہے تو خود کمیٹی بنادے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ڈی ایچ اے میں خالی گھر کے باہر اینٹ رکھ دیں تو دیکھیں کیسے پہنچتے ہیں، کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایچ اے میں کوئی کسی سے پوچھنے والا نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ یہی حالات رہے تو پھر ادارے سمندر سے آگے بھی تعمیرات کر ڈالیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مزار قائد کے سامنے فلائی اوور کیسے بنادیا، مزار چھپ کر رہ گیا عمارتیں بنا ڈالیں، شاہراہ قائدین کا نام کچھ اور ہی رکھ دیں وہ قائدین کی شاہراہ نہیں ہو سکتی۔
سلمان طالب الدین نے کہا کہ ایک شخص پیسہ جمع کرکے فلیٹ خریدے تو کیسے توڑ دیں، ریلوے نے پہلے ہی 6 ہزار غریب لوگوں کو بے گھر دیا، وفاق نے سندھ کو 100 ارب دینے ہیں، ہمارے پاس وسائل نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر 100 ارب مل بھی جائیں تو کیا ہوگا، ایک پائی لوگوں پر نہیں لگے گی، 105 ارب روپے پہلے بھی ملے لیکن ایک پائی نہیں لگی،کراچی ایک میگا پرابلم سٹی بن چکا، نہ صوبائی نہ وفاقی، نہ شہری حکومت کوئی کام کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے کراچی کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے اس سلسلے میں سول انجینئرز، ماہرین اور ٹاؤن پلانرز سے مدد حاصل کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت نے قرار دیا بتایا جائے کراچی کو کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے اور جدید ترین شہر کیسے بنایا جا سکتا ہے، اس حوالے سے آگاہی مہم بھی چلائی جائے، اخبارات اور ٹی وی پر لوگوں کو بتایا جائے کہ شہر کیسے بہتر ہوگا، آئندہ سیشن تک سندھ حکومت کی تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے عدالت کو یقین دلایا کہ اچھی تجویز دیں گے، ایک کمیٹی بنائی گئی ہے میں خود اس پر بریف کر دوں گا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پتہ نہیں چل رہا کہ کس پر بھروسہ کریں۔
خاتون شہری نے کہا کہ یہ کمیٹی کے چکر میں وقت گزارنا چاہتے ہیں، ان کی کمیٹیوں میں تو وہی لوگ ہیں جو یہ سب کررہے ہیں۔
Comments are closed.