اسلام آباد: ایوان بالا سینیٹ نے بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سزا سے متعلق زینب الرٹ بل 2020ء کی منظوری دے دی۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا جس میں سینیٹر اعظم سواتی نے زینب الرٹ بل پیش کیا۔ اپوزیشن نے بل میں ترامیم تجویز کرتے ہوئے کہا کہ اس بل میں مزید تین دفعات شامل کی جانی چاہئیں۔
اپوزیشن نے بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قصاص اور سزائے موت سے متعلق دفعات شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔
سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اس بل میں عمر قید کی سزا کم ہے، اگرثابت ہو کہ بچےکو زیادتی یا قتل کیلئےاغوا کیاگیاتواس کی سزاموت ہونی چاہیے۔
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ بل میں سزائےموت کی دفعہ شامل کیوں نہیں کی گئی، بل میں دفعہ 302 اے کےتحت قصاص کو شامل کیا جائے، قصاص کے خاتمے کے لیے عالمی دباؤ ہے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
سراج الحق نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں 3 ہزاربچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، یہ سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ہم سب کے بچوں کا سوال ہے، قتل کی سزاتو پہلے ہی قصاص ہے، آپ نے بچوں کے قتل کی سزا کو صرف جیل تک محدود کردیا ہے، یہ انصاف کا قتل ہے، اس بل میں دفعہ 302 اور دفعہ 201 کو شامل کیا جائے۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ بل میں ترامیم کا ایک طریقہ کار موجود ہے، بل کو ابھی منظور ہونے دیں، آپ ترامیم لے آئیں ہم منظور کروا لیں گے۔
شفقت محمود نے بھی کہا کہ بہت سی باتیں کی جارہی ہیں جن میں وزن بھی ہے، لیکن فی الحال طریقہ کار کے مطابق بل کو پاس کر دیں، ترامیم بعد میں شامل کر دیں۔
سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ بچوں سے زیادتی کرنے والے درندوں کو الٹا لٹکانا اور پھانسی دینی چاہیے، ترامیم آتی رہیں گی اس وقت بل کو منظور کروانا ناگزیر ہے، ہر جگہ بیچ میں اٹھارویں ترمیم آجاتی ہے۔
سینیٹر مولوی فیض محمد نے کہا کہ یہ قصاص کا مسئلہ ہے، کوئی کسی کو قتل کرے تو اس کے لیے شریعت میں قصاص ہے، جنسی زیادتی اور قتل کی سزا میں قصاص کو شامل کریں۔
بحث کے بعد سینیٹ نے کثرت رائےسے بل کی منظوری دے دی جس کے نتیجے میں اغوا شدہ بچوں کی بازیابی، ردعمل اور الرٹ کرنے کے لیے قانون وضع کردیا گیا۔
بل کے تحت بچوں کے خلاف جرائم پر زیادہ سے زیادہ 14 سال اور کم سے کم 7 سال قید کی سزا ہوگی۔ قومی کمیشن برائے حقوقِ بچگان کا نام تبدیل کر کے ’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی‘ کردیا جائے گا۔
بل کے مطابق کسی بھی بچے کے اغوایاجنسی زیادتی کے واقعہ کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنا ہوگی۔ پولیس بچے کی گمشدگی یا اغوا کے واقعہ کی رپورٹ درج ہونے کے دو گھنٹوں کے اندر اس پر کارروائی کرنے کی پابند ہوگی۔
Comments are closed.