تحریر :- نور احمد راہی
بلا شبہ تندرستی ہزار نعمت ہے جس جب انسان تکلیف میں مبتلا ہو تو اپنی ساری دنیا دے کر بھی سکون اور
تندرستی حاصل کرنا چاہتا ہے
اللہ تعالی نے انسان کے لیے ان گنت نعمتیں پیدا کی ہیں۔خصوصا پروردگار نے جڑی بوٹیوں میں بھی انسانی
بیماریوں کا علاج رکھا۔
بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جب چاہے کسی انسان کو ابدی نیند سلا دے
اور جب چائے اسے زندگی عنایت فرمائے اللہ تعالی کی بادشاہی لامحدود ہے۔وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اس زات نے معمولی جڑی بوٹی میں بھی انسان کیلئے شفا رکھی ہے۔
اور بعض ایسے انسان ہوتے ہیں جو دنیا کی تمام ٹیکنالوجی استعمال کرکے اور کروڑوں روپے خرچ کرکے
بھی دوبارہ زندگی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
انسانی جسم میں ایسا نظام تشکیل موجود ہے جس سے چھوٹا خلل بھی انسان کو موت کی آغوش میں پہنچا دیتا
ہے۔
کسی زمانے میں کینسر جیسے مہلک بیماری کو لاعلاج سمجھا جاتا تھا لیکن انسانی محنت رنگ لے آئی سائنس
نے ترقی کی اور آج کینسرسمیت کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا علاج ممکن نہ ہو۔
بلاشبہ کینسر مہلک بیماری ہے۔تحقیق کے مطابق کینسر چھوٹے سے جراثیم سے جنم لیتا ہے
اور پھر انسان کے پورے جسم کو مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے
سائنس کی ترقی نے بالآخر کینسر کا علاج بھی دریافت کر لیا
پرانے زمانے میں طبیب اس کا علاج کرتے تھے اور جہاں کینسر نے حملہ کیا ہے اس جگہ کو جلا دیا جاتا تھا
لیکن شفا منجانب اللہ ہے۔
آج علاج کے لیے کئی طریقے دریافت کر لیے گئے ہیں جن پر عبور حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ علم حاصل
کی جاتی ہے۔
بلوچستان میں کینسر کا علاج کرنے کے لیے ماہرین محنت کی ہے اور اب وہ کینسر کے موذی مرض میں
مبتلا انسانوں کا علاج کر رہے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں کینسر کے علاج کے لیے باقاعدہ “سینار” کے نام سے قائم ہسپتال کام کر رہا
ہے ۔
سینار ہسپتال کوئٹہ میں کینسر کے علاج کے لئے سب سے معروف نام ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی کنسلٹنٹ
ریڈیوتھراپی میڈیکل انسولیجسٹ کا ہے
کینسر کے مریضوں کے علاج کے لئے ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی کا نام بہت مقبول ہے ان کے علاج سے اب
تک سینکڑوں مریض مہلک کینسر سے نجات پاکر زندگی کی بہاریں دیکھ رہے ہیں
اور ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی کے لیے ہر وقت دعا گو ہیں۔ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی خدا ترس انسان دوست
مزاج کے مالک ہیں اور علاج کے دوران مریض کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں
اورانہیں اس بات کی قعطا پرواہ نہیں ہو تی کہ مریض سے کینسر کی جراثیم ان میں منتقل ہو سکتے ہیں کیونکہ
ان کا توکل اللہ کی ذات پر ہے۔
یونین برائے بین الاقوامی کینسر کنٹرول (یو ائی سی سی) کے زیر اہتمام اور ہر سال 4 فروری کو منایا جانے
والا عالمی یوم کینسر . اس موذی مرض میں مبتلا افراد میں اس قابلِ علاج مرض کی پریشانیوں اور تکالیف کی
طرف بین الاقوامی برادری کو راغب کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
کینسر کا عالمی دن اور سینار ہسپتال کابہترین کردار
کینسر کے عالمی دن کے حوالے سے ہم نے ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی کنسلٹنٹ ریڈیوتھراپی میڈیکل انسولیجسٹ
سے اس مہلک مرض اس کے ممکنہ علاج کے حوالے سے تفصیلی نشست کا اہتمام کیا ان سے ہو نے والی
گفتگو پیش خدمت ہے
سوال ۔ڈاکٹر صاحب ہمیں وقت دینے کا شکریہ کینسر کے مرض پر اب تک کتنا کام ہوا ہے اور اس کے
علامات اور علاج کے بارے میں ہمارے قارئین کو بتائیں
جواب۔ جس طرح آپ کے علم میں ہیں کہ کینسر قدیم ترین بیماری کسی زمانے میں اس مرض کو لاءعلاج کہا
جاتا تھا اور اس میں مبتلا انسان کو انسان کی موت کو یقینا سمجھا جاتا تھا
موت تو برحق ہے یہ کینسر کے بغیربھی آ سکتی ہے لیکن کینسر کے مریض کونیم مردہ تصور کیا جاتا تھا
مگر وقت گزرنے اور اس مرض پر
ریسرچ طریقہ علاج کے بعد آج طب اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکا ہے سب سے پہلے مرض کی تشخیص
ہوتی ہے اور ہمیں پتہ چل جائے کہ کینسر ہے اور مریض کنفرم ہو جائے تو پھر ہم دیکھتے ہیں
کہ اس مرضکا انسانی جسم میں اس کا پھیلاو کس قدرہے اس لیے مریض کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں
جس میں سی ٹی سکین سب سے اہم ہے جو مکمل جسم
کی تصویر کھینچتا ہے جس میں نظر آتا ہے کہ کینسر کے سیل کے جراثیم کہاں پڑے ہوئے ہیں اور اس کے
اردگرد کے اعضاءپر کتنا اثر پڑا ہے پھر پیڈ سکین کیا جاتا ہے
جس میں مریض کو گلو کوس کا ایک ٹیکہ لگایاجاتا ہے جو جسم کے اندر جاکر پھیلتا ہے ۔ جسے کینسر سیل
استعمال کرتے ہیں جس سے ہمیں یہ پتہ چل جاتاہے
کہ یہ جراثیم کہاں کہاں پر موجود ہے اس کے بعد مریض کا الٹراساونڈ کرایا جاتا ہے جس سے معلوم
ہو جاتا ہے کہ کینسر کا پہلا مریض کے جسم میں کتنا ہے
اس کے بعد پھر مریض کا ایم ار آئی کرایا جاتا ہے جس میں ہم دماغ پیٹ اور جسم کے دوسرے حصوں میں
کینسر جراثیم کا پتہ چلاتے ہیں کہ کہاں کہاں پر
اثرانداز ہوئے ہیں کینسر کا پتہ چلانے کے لیے دماغ کا ایم آر آئی ضروری ہے جس کے بعد ہمیں اندازہ ہو جاتا
ہے کہ ہم نے کینسر کا علاج کس طرح کرنا ہے کہاں سے شروع کرنا ہے۔
سوال ڈاکٹر صاحب کینسر کے علاج کے لئے کیا طریقہ خاص ہوتا ہے۔
جواب۔ مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ مرض کیا ہے اور اس کی ابتدا جسم کے کس حصے
سے ہے اس کے بعد علاج کی طرف جاتے ہیں
اگر کینسر جسم کے کسی ایک جگہ پر موجود ہو تو پھر ہم آپریشن کرتے ہیں جسے سرجیکل ٹریٹمنٹ کہا جاتا
ہے اس جگہ کا آپریشن کیا جاتا ہے جہاں گھلٹی موجود ہے
جسم سے وہ حصہ آپریشن کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے،جس طرح بریسٹ کینسرمیں جراثم ایک ہی جگہ پر
ہے تو اسے جس قدر جلدی آپریشن کر کے نکال دیا جائے
اتنا ہی بہتر ہے لیکن آپریشن میں ہم وہ گھلٹی نکالسکتے ہیں جو ہمیں نظر آرہی ہے جسم میں جو کینسر کے
چھوٹے چھوٹے سیل ہوتے ہیں وہ ہمیں نظر نہیں
آتے جو وہاں سے نکل کر اردگرد غدودوں میں چلے جاتے ہیں اس لئے آپریشن کے بعد بھی بہت سی بیماریوں
میں کمیو تراپی یا ایمنو تھراپی یاریڈ یشن دینی پڑتی ہے
کیونکہ وہ بیماری جو ہم نے نکالی ہے وہ ایک جگہ کے علاوہ جسم کے ارد گرد تھوڑے سیل موجود ہوتے
تھے انھیں آپریشن کے فورا بعد ہنڈل کر نا پڑتا ہے
اسیطرح ریڈیشن بھی ایک جگہ پر کی جا سکتی ہے بہت سی جگہوں پر نہیںجہاں کینسرایک جگہ فوکسڈ ہے اس
کو جلا کر بان کر سکتے ہیں اس میں آج کل بڑے جدید طریقے بھی آ چکے ہیں
ایسی مشین ہیں جن سےشعائیں ایک جگہ پر فو کس کی جاتی ہے تاکہ جسم کے باقی حصے متاثر نہ ہو ںایک
نئی قسم کی ریڈیشن ہے
جسے کی ما نایف کہتے ہیں سائبرنائف بھی پاکستان میں آ چکی ہے جس سے کینسر سیل کو بہت بہتر طریقے
سے جلا کر ختم کیا جا سکتا ہے
خاص طور پر برین کینسر کو اس طریقہ علاج کے ذریعے ختم کیا جا سکتاہے تاہم اب زیادہ ٹارگیٹ طریقہ
علاج پر توجہ دی جا رہی ہے
کیمو تھراپی جب خون میں جاتی ہے تو کینسرکے سیلز کے علاوہ نارمل سیلز کو بھی متاثر کرتی ہے جس کی
وجہ سے سر کے بال گر جاتے ہیں
کمزوری ہوتی ہے الٹیاں آتی ہیں منہ میں چھالے بن سکتے ہے اس طریقہ علاج سے کینسر سیلز تو ختم ہو
جاتے ہیں
50 سے کم عمر افراد میں بڑی آنتوں کے کینسر میں تشویشناک حد تک اضافہ
مگر مریض کو دیگر جسمانی مسائل آگھیرتے ہیں اس لئے یہ طریقہ علاج اب آستہ آستہ کم ہوتا جارہا ہے ہم وہ
طریقہ علاج اختیار کرتے ہیں جو صرف کینسر کے جراثیم کا خاتمہ کریں
اور باقی جسم متاثر نہ ہو کینسر کےعلاج میں اب نئی چیزٹارگیڈڈ تھراپیزہے یہ وہ خاص طریقہ ہے جو صرف
کینسر سیل کو ٹارگٹ کرکے ایسی
دوائیاں دی جاتی ہے جو جسم میں جاکر کینسر سیل کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور انہیں نقل و حرکت کرنے
نہیں دیتے اور جسم کے دوسرے حصوں میں نہیں جا پاتے
اس طریقہعلاج سے علاج میں انجکشنز بھی ہیں اور ٹیبلٹس بھی ٹیبلٹ جسم میں جاکر خون میں شامل ہو جاتے
ہیں
جو کہکینسر جراثیم کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں دنیا بھر میں یہی طریقہ علاج اختیار کیا جا رہا
ہے
اور کینسر کے علاج پر تحقیق ابھی جاری ہے اور لگتا یہ ہے کہ آنے والے وقت میں کینسر کا علاج
انجکشنزاورٹیبلٹس کے ذریعے ہی ممکن ہو جائے گا
اور کینسر کے علاج کے بعد سب سے اہم ا یشو مریض کی خوراک ہے کیونکہ بعض مرتبہ خوراک سے
مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں
اکثر یہ سناجاتا ہے کہ میٹھا کھانے سے کینسر ہو جاتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے اگر کینسر نے دوبارہ پھلناہے تو
وہ میٹھا کھانے کے بغیر بھی اور بے احتیاطیوں کی وجہ سے بھی پھیل سکتا ہے
البتہ کچھ ایسے کھا نے ہیں سے کینسر بڑھتا ہے جن میں پرانے بوسیدہ کھانا ٹین میں پیک کھانے و غیرہ شامل
ہیں علاج کے بعد مریض کو موسم کے مطابق تازہ پھل کھانے چاہیے
کینسرکے علاج کے بعد ورزش پر توجہ دینی چاہیے جو کینسرکو دوبارہ پیدا ہونے ےا اسے پھیلنے سے روکتا ہے۔
سوال۔ ڈاکٹر صاحب بلوچستان میں کینسر کا علاج ممکن ہو چکا ہے۔
جواب۔ جی ہاں الحمداللہ بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ میں کینسر کا علاج ممکن ہو چکا ہے اس سلسلے میں
سینار ہسپتال میں باقاعدہ طویل عرصے سے کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے
جہاں کینسر کے ماہرین کو تمام تر سہولیات مشینری وغیرہ دستیاب ہیں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اب
تک سینکڑوں کینسر کےمریض صحت یاب ہو کر باقی لوگوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں
ہمارے پاس کینسر کے بہترین ماہرین موجود ہیں جن کا کوئی ثانی نہیں ہے بی ایم سی میں کینسر کے بہترین
وارڈ موجود ہیں ہماری کوشش ہوتی ہے
کہ ماضی کی طرح بلوچستان کوئٹہ کے مریضوں کو علاج کے لیے دوسرے شہروں میں نہ جانا پڑے ۔
سوال ۔کینسر کا علاج انتہائی مہنگا ہے غریب مریضوں کی کیا حالت ہوتی ہوگی۔
جواب ۔آپ کا کہنا بالکل درست ہے بلوچستان چونکہ کے غریب صوبہ ہے اور یہاں غریب مریض آتے ہیںبلکہ
ہمسایہ ملک افغانستان اور ایران سے بھی کینسر کے مریض لائے جاتے ہیں
ان غریب مریضوں کے پاس سرنج کے پیسے نہیں ہوتے تاہم چند ایک سرکاری محکمے جس میں بیت المال
زکواةو عشر محکمہ سماجی بہبودکے تحت انڈومومنٹ عوامی فنڈ اور دیگر شامل ہیں
اسی طرح مختلف این جی اوز اور مخیرحضرات بھی مریضوں کی مدد کرتے ہیں اور انہیں ادویات وغیرہ فراہم
کرتے ہیں یہ امر قابل ذکر ہے
کہ بعض اوقات کینسر وارڈ کے ڈاکٹر بھی اپنی جیب سے کینسر کے غریب مریضوں کی مدد کرتے ہیں
ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اگرمہنگے ادویات کی مد میں مریضوں کی داد رسی کی جائے اور مہنگے
ادویات ان کوسرکاری طور پر مہیا کئے جائیں
توہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ دوسرے صوبوں یا اسپتالوں کی نسبت ہمارے ہاں کینسر کے مریضوں کا بہترین
اور سستا علاج ہو سکے گا
سوال ۔ سینار ہسپتال میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے تمام مشینری موجود ہیں۔
جواب ۔کوئٹہ میں کینسر پر کام کرنے والا سینار ہسپتال پورے صوبے کا واحد ہسپتال ہے جہاں صرف کینسر
کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے
سینار ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر 150 مریضوں سے زائد مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں اور سالانہ
بلوچستان سمیت ہمسائے ممالک ایران اور افغانستان سے پانچ ہزار مریض ہمارے پاس آتے ہیں
جن کا علاج کرتے ہیں ہم سینار ہسپتال میں کیمیوتھراپی اور ریڈیشن طریقہ علاج استعمالکرتے ہیں
جس کے وسائل ہمارے پاس موجود ہیں کینسر کے علاج کے لیے ہمارے پاس لنک ریڈیشن ہائی پاورجدید
مشینری موجود ہیں جس کے ذریعے ہم شعاﺅں سے کینسر کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں
بلوچستان سے مردوں میں خوراک کی نالی میں کینسر اور خواتین میں بریسٹ کینسر کے زیادہ مریض آتے ہیں
اور اگر سالانہ 5000 مریض آتے ہیں تو ان میں سے پانچ سو سے زائد چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔
سینار ہسپتال میں مریضوں کا علاج انڈومنٹ فنڈ جو کہ محکمہ سماجی بہبود کی طرف سے ہے اور بیت المال و
زکواة محکمہ کی طر ف سےادویات فراہم کی جاتی ہیں
تاہم اکثر مریض ان سرکاری محکموں تک رسائی نہ ہونے کے باعث علاج سے محروم رہ جاتے ہیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ سینار ہسپتال جو بلوچستان میں کینسر کا واحد علاج گاہ ہے
اس کے پاس مریضوں کے علاج کے لیے اپنے سائل بھی ہونے چاہئیں
Comments are closed.