اسلام آباد: سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان کے دو عہدوں کیخلاف دائر درخواست خارج کردی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ چیف جسٹس کی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کی سربراہی آئین کے خلاف نہیں، جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی آرڈیننس عدلیہ کو مزید طاقتور بناتا ہے، چیف جسٹس کو بطور چیئرمین جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کوئی مراعات بھی نہیں ملتیں۔
درخواست گزار ریاض راہی نے اعتراض کیا کہ پالیسی بنانا عدلیہ کا نہیں ایگزیکٹو کا اختیار ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پالیسی ساز کمیٹی میں اعلی عدلیہ کے ججز شامل ہوتے ہیں، جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیکر فیصلے کرتی ہے، عدلیہ کی کارکردگی کے حوالے سے فیصلہ ایگزیکٹو کیسے کر سکتا ہے؟۔
ریاض حنیف راہی نے کہا کہ پرویز مشرف کے دو عہدے بھی تو عدالت کالعدم قرار دے چکی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پرویز مشرف کیس کا اطلاق آپ کے مقدمہ پر کیسے ہو سکتا ہے؟ قانون کے مطابق اگر کوئی عہدہ ملتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، کوئی چیف جسٹس اپنی خواہش سے پالیسی ساز کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کا سربراہ نہیں بنتا، ہر صدر مملکت بھی پی سی بی کا پیٹرن ان چیف ہوتا ہے۔
ریاض راہی نے کیس کسی اور بنچ میں منتقل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس 2018 میں حکم دے چکے کہ مقدمہ کسی اور عدالت میں لگایا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے خود مقدمہ سننے سے معذرت کی تھی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کے موقف سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ سپریم کورٹ نے کیس کسی اور بنچ میں منتقل کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی۔
Comments are closed.