Khabardar E-News

سیاست، صحافت میں شہیدخان عبدالصمد خان اچکزئی کی خدمات

329

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو بلوچستان کا گاندھی بھی کہا جاتا تھا
تحریر:۔سیدعبدالخالق آغا

تمام ذی روح کو ایک دن فنا ہونا ہے اورہرجاندارکو موت کاذائقہ چھکناہوگا یہ فیصلہ اٹل ہے لیکن وہ شخصیات تاریخ کے اوراق اوراقوام کے نظریات میں زندہ رہتے ہیں جو کسی مقصداورکسی خاص نظریے پرچل کر جدوجہد کرتے ہوئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ہیں اگرکسی قوم،علاقہ، وطن، معاشرے یا کسی ملک پر جب بھی کوئی سخت دورآتا ہے تو ان کے درمیان چند ایک ایسے نمایاں شخصیات پیداہوتے ہیں جواپنے قوم،ملک، وطن، علاقہ، خطہ یا اپنے مٹی کے لیے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوارثابت ہوتے ہیں اوروہ ون مین آرمی کی حیثیت اختیار کرتے ہیں جن کی کئی مثالیں اس دنیا میں موجود ہے جنہیں تاریخ سنہرے حروف سے یادکرتے ہوئے خراج عقیدت اورخراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ان شخصیات اورہستیوں میں سے آج میں اس عظیم قوم پرست،وطن پرست، حق پرست ہستی کا ذکر کرنے جارہاہوں جس کی زندگی ایک جہدمسلسل سے عبارت تھی جس نے سیاسی،سماجی، قبائلی اورصحافتی میدان میں وہ ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے یہ نام ہے “خان شہید ” شہید خان عبدالصمد خان اچکزئی کا جنہوں نے پوری زندگی عوام کے نام کرتے ہوئے جان جیسے متاع عزیز بھی قربان کردی آج اسے تاریخ خان شہید کے نام سے جانتی اورمانتی ہے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی 7 جولائی 1907ء کو عنایت اللہ کاریز گلستان میں نورمحمد خان کے گھر کی پیدائش ہوئی۔ یہ ایک ایسا خاندان تھا جو پچھلے 5 پشتوں سے وطن کی آزادی اور دفاع کے جنگوں میں پیش پیش رہا۔ یہ اس برخوردار خان کا خاندان تھا جو احمد شاہ ابدالی کے 3 خاص جرنیلوں میں سے ایک تھے۔
عبدالصمد خان اچکزئی کی سیاسی زندگی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب وہ جماعت ہشتم کے طالب علم تھے اور انہوں نے تحریک خلافت کا حصہ بنتے ہوے طلبا کا جلوس نکالا تھا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی مزاحمتی سیاست کرنے والے عبدالصمد اچکزئی کو بار بار قید و بند کی تکلیفیں برداشت کرنی پڑی۔ لیکن مجال ہے کہ یہ خان شہید کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹا پاتے اور ہٹا تے بھی کیسے؟ وہ کسی ذاتی مقصد کے لئے نہیں بلکہ قومی آزادی اور قومی تشخص کے لئے لڑ رہے تھے اور آزادی کی راہ میں یہ سب مشکلات آتی رہتی ہیں۔
خان شہید ایک چلتے پھرتے تحریک تھے غیر منقسم ہندوستان میں تحریک آزادی سے لے کر پاکستان میں مارشل لاء کے خلاف جدوجہد تک “خان شہید” نے اپنی زندگی کا تقریبا نصف حصہ سیاسی بنیادوں پر جیل کی کال کوٹھڑی میں گزارا۔خان شہید 1929ء میں پہلی دفعہ 28 دن کے لئے جیل گئے۔ 1930 میں دوسری دفعہ گئے جہاں انھیں دو سال سزا ہوئی، 1933 میں 3 سال کے لیے جیل گئے اور 1943 میں 10 ماہ کے لئے انہیں جیل ہوئی۔ صرف جیل ہی نہیں مختلف طریقوں سے خان شہید کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناکر دیوار سے لگانے کی سازشوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا جس کی واضح مثال 1939 میں انجمن وطن کے زیر اہتمام اوستہ محمد کا جلسہ ہے۔ اس جلسے پر انگریزوں نے اپنے پروردہ سرداروں کے ذریعے حملہ کروایا جس میں خان شہید اور باچا خان دونوں شرکت کر رہے تھے اور دونوں زخمی بھی ہوئے۔اسی طرح جدوجہد کاسلسلہ جاری رہا۔ 1947 میں اسی جدوجہد کے نتیجے میں انگریز چلے گئے اور مملکت خداداد پاکستان کے بنتے ہی آزادی کے اس عظیم مجاہد کو اپنے وطن پر ملی تشخص، ملی وحدت، اپنے وسائل پر اختیار، ملک میں جمہوریت اور قوموں کے درمیان برابری کی جدوجہد شروع کرنے کی پاداش میں ان پر ظلم و جبر کی انتہا کی گئی۔ انہیں 1948 سے 1954 تک جیل میں ڈالا گیا۔ ایوب خان نے مارشلاء لگایا تو 1958ء میں سب سے پہلے خان شہید کو قید کیا اور 14 سال سزا سنائی یوں خان شہید ایوبی مارشلا کا پہلا اور آخری قیدی بنا۔ 1968 میں انہیں ایک سال کے لئے پھر قید کیا گیا۔ گویاں قید اس کا دوسرا گھربن چکا تھا جوہر مخلص اورنظریاتی لیڈرکے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ خان شہید نے ایف اے اور بی اے کے امتحانات جیل سے دیے اور جیل میں ہی کئی کتابوں کا ترجمہ بھی کیا انہوں نے فیوچر آف فریڈم نامی کتاب کا ترجمہ کیا، مولانا شبلی نعمانی کے سیرت نبوی کا پشتو میں ترجمہ کیا اور “زما ڑوند او ڑوندون” کے نام سے اپنی آٹو بائیوگرافی لکھی جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے پشتون زبان کو ایک ایسا رسم الخط دیا جو کہ دوسرے زبانوں کے حروف سے بالکل پاک تھا۔ خان شہید انگریز کے مقرر کردہ قبائلی عمائدین کے خان شہید شدید مخالف تھے۔ خان شہید انہیں بھی پشتونوں کے تباہی کے ذمہ دار سمجھتے تھے کیونکہ یہی لوگ بیوروکریسی کے کہنے پر اپنی قوم کے خلاف غیروں کے آلہ کار بنتے تھے۔ ان کے متعلق خان شہید اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہے کہ ”کوئی بھی شخص قوم کو بیچ کر اپنے لئے عزت نہیں کما سکتا ہاں البتہ اپنی قیمت لگا کر بک سکتا ہے“۔شیریں عرین پشتون سوشل اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کی پشتونخواہ ویب سائٹ پر صمد خان اچکزئی کے بارے میں لکھتی ہیں، وہ نو عمر تھا جب ایک سرکاری ایجنٹ نے انہیں سرکاری ملازمت کی پیش کش کی تھی لیکن انہیں انکار کردیا گیا تھا:”مجھے نوکری نہیں چاہئے، مجھے آزادی چاہئے۔ایرین کے مطابق، صمد خان نوعمر تھا لیکن وہ قوم سے محبت کرتا تھا، لہذا اس نے سرکاری ملازمت پر سرکاری جیل کو ترجیح دی۔
خان شہید اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کے یہ جدوجہد ایک سیاسی پارٹی کے بغیر ممکن نہیں اس سلسلے میں انہوں نے 30 مئی 1938 کو ”انجمن وطن“ بنائی جس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کیا۔ اس وقت کے اخباری بیانات کے مطابق 1939 میں انجمن وطن کے یوم تاسیس کے حوالے سے منعقد تقریب میں 10000 کے قریب افراد شریک تھے۔ تقسیم ہند تک خان شہید اسی پلیٹ فارم سے شرکت کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد خان شہید نے 1954 کو ورور پشتون بنائی جو کہ 1957 میں نیشنل عوامی پارٹی میں ضم ہوگئی لیکن ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد جب نیپ نے اپنے منشور کی خلاف ورزی کی اور لسانی بنیادوں پر صوبے بنانے کے بجائے سابقہ برٹش بلوچستان کو بلوچستان نامی صوبے کا حصہ بنایا تو خان شہید نے اپنا راستہ الگ کرتے ہوے پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
خان شہید سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اعلی پائے کے ادیب اور صحافی بھی تھے۔ جب 1938 میں برطانوی پریس ایکٹ کے تحت برطانوی بلوچستان میں پریس کو سرکاری طور پر آزاد کرایا گیا تو، عبدالصمد خان نے پشتو اور اردو میں استقلال کے نام سے ایک اخبار بھی شائع کیا۔انہوں نے اخبار کے لئے بھی لکھتا رہا۔1950 میں حکومت نے استقلال کو بند کردیا اور عبد الصمد خان اچکزئی کو قید کردیا گیا۔معروف پشتون مصنف خیر محمد عارف نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ خان شاہد کی صحافت صرف استقلال تک محدود نہیں تھی۔خان شہید نے 1953ء میں ایک پشتو میگزین بھی شروع کیا تھا۔ انہوں نے“پیغام جدید”اور“گلستان”رسالے بھی شائع کییعبدالصمد خان اچکزئی نے 1938 میں کوئٹہ سے ہفتہ وار ”استقلال“ اخبار جاری کیا۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان میں اس سے پہلے صحافت نے کوئی خاص جگہ نہیں بنائی تھی۔ جو اخبار شائع ہوتے تھے ان میں سماجی و سیاسی حوالے سے کچھ نہیں چھپتا تھا۔ ان اخبارات میں انگریزوں کی سرگرمیوں اور ان کے حوالے سے خبریں شائع ہوتی تھیں اور اخبارات بھی انگریز حکومت کی جانب سے جاری ہوتے تھے۔ بلوچستان میں پریس ایکٹ تک نافذ نہیں ہوا تھا۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے خان عبدالصمد خان اچکزئی نے کوئٹہ سے اخبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

اخبار کیلیے اردو کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ اس وقت پشتونوں اور بلوچوں نے مل کر انگریز حکومت کے خلاف محاذ بنایا تھا۔ یوں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان کی سیاسی تحریکوں کی وجہ سے ہی صوبے میں اردو زبان نے بھی ترقی کی۔اس زمانے میں کوئٹہ میں بہت کم پرنٹنگ پریس تھے اس لیے عبدالصمد خان اچکزئی کو اپنا پرنٹنگ پریس لگانا پڑا۔ عبدالصمد خان اچکزئی نے پرنٹنگ پریس اپنے دوست یوسف عزیز مگسی کے (جو 1935 کے قیامت خیز زلزلے میں شہید ہوئے تھے) نام سے منسوب کیا اور یہ صوبے کی تاریخ کا سب سے پہلا الیکٹرک پریس تھا۔ عزیز الیکٹرک پرنٹنگ پریس پر دس ہزار روپے کی لاگت آئی۔پرنٹنگ پریس کیلیے 7500 ہزار روپے دوستوں اور عام عوام نے چندہ دے کر جمع کیے، جن میں سے دو ہزار روپے خان آف قلات میر احمد یارخان نے دیئے۔ باقی روپے عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنی جائیداد گروی رکھ کر دیئے۔جو ملک وقوم کے لیے عظیم جدوجہد کی ایک درخشاں مثال ہے اس طرح صوبے کی تاریخ کا پہلا الیکٹرک پرنٹنگ پریس کوئٹہ کے مشہورعلاقے پرنس روڈ پر لگایا گیا۔عبدالصمد خان اچکزئی صحافت کے علاوہ سیاسی تحریک بھی چلا رہے تھے اس لیے اخبار کیلیے ایڈیٹر باہر سے بلانا پڑا۔ اخبار کے علاوہ خان عبدالصمد خان اچکزئی یونائیٹڈ پریس آف انڈیا کیلیے بھی کوئٹہ سے خبریں بھیجتے تھے۔ ہفتہ وار ”استقلال“ انجمن وطن کا ترجمان اور قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کا ترجمان اخبار تھا۔ انگریز حکومت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اخبار کو اشتہارات بھی نہیں ملتے تھے۔ کچھ عرصے بعد عبدالصمد خان اچکزئی اور ایک ہندو اخبار نویس مسٹرکے ٹی جھنگیانی نے کراچی جا کر اشتہارات کیلیے بھاگ دوڑ شروع کی اورانہیں کامیابی مل گئی۔ ”استقلال“ انجمن وطن اور کانگریس کا حمایت یافتہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ کی خبروں کو بھی نمایاں کوریج دیتا تھا۔ اخبار کو کئی بار پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
1939 میں خان عبدالصمد خان اچکزئی نے کانگریس کی ”ہندوستان چھوڑوتحریک“ کی بھرپور حمایت کی اور اخبار میں تحریک کی حمایت میں لکھتے رہے جس پر ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور جرگے کے ذریعے تین سال کی سزا سنائی گئی اور اخبار کے ایڈیٹر کو شہر بدر کردیا گیا۔ استقلال اخبار ملک کی ازادی سے ہلے، اور بعد میں بھی، شدید مشکلات کا شکار رہا اور ایک بار تین ہزارروپے کی ضمانت بھی ضبط ہوئی۔ اخرکار 1950 میں یہ اخبار ہمیشہ کیلیے بند ہوگیا۔عبدالصمد خان اچکزئی 1938 میں جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔
خان شہید تقریباً ہر معاملے میں ترقی پسند نظریات کے مالک تھے اور نا صرف یہ کہ ان نظریات کا علم رکھتے تھے بلکہ انہیں اپنی زندگی میں عملی طور پر نافذ بھی کرچکے تھے۔ قومی، معاشی اور معاشرتی آزادی کے یہ علمبردار اگر دنیا کے کسی اور قوم میں پیدا ہوتے تو اب تک پوری دنیا کے لئے مزاحمت کی علامت بن چکے ہوتے۔ حق بات یہی ہے کہ خان شہید کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور نا ہی ان کا حق ادا کیا گیا ہے۔ ریاستی نصاب میں ایسے کئی ہیروز کو شامل نہ کرنا تاریخ سے ناانصافی ہے۔ گلہ تو اپنوں سے ہے کہ کیوں اس دھرتی کے سچے فرزند کا حق ادا نہیں کیا گیا؟ کیا اس شخص کا یہ حق نہیں کہ ان کے خدمات کے اعتراف میں عالمی کانفرنسز منعقد کیے جائیں؟ کیا خان شہید کا یہ حق نہیں کہ ان خدمات کے اعتراف میں ریسرچ آرٹیکلز شائع کیے جائیں؟ اور یہ سب صرف اس لئے نہیں کہ ان کے خدمات کا اعتراف کیا جائے بلکہ اس لئے بھی کہ آنے والی نسلیں اپنے ہیروز کو جان سکے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اپنی قوم اور وطن کے فلاح و بہبود کا ذریعہ بن سکے۔
“خان شہید” عبد الصمد خان اچکزئی 2 دسمبر 1973 کو جمال الدین افغانی روڈ پر دستی بم حملے میں رات کے وقت شہید ہم سے جسمانی طورپرجداکیا گیا ، جب وہ بلوچستان کے صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے۔ ان کو آبائی گاؤں عنایت اللہ کاریز گلستان میں سپرد خاک کردیا گیاتھا لیکن اس کافکروفلسفہ آج بھی پشتونخواملی عوامی پارٹی کی شکل میں آب وتاب سے چمک رہا ہے اورمشرمحمودخان اچکزئی کی صورت میں ہمارے درمیان موجود بھی ہے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ مارنے سے قومیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ ان شہداء کے لہوں سے قوموں کے شجر کی آبیاری ہوتی ہے۔

Comments are closed.