کراچی: ماہرین نے مصنوعی طور پر تجربہ گاہ میں ہیرا بنانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس ہیرے کی تیاری میں انہوں نے گیس اور خام تیل میں موجود ایک سالمے (مالیکیول) کو بطور بنیاد استعمال کیا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ روایتی ہیرے زمین کی سینکڑوں کلومیٹر گہرائی میں بنتے ہیں جہاں غیرمعمولی حرارت اور دباؤ موجود ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں کاربن کرسٹلائز ہوجاتا ہے اور ایک قیمتی ہیرے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد آتش فشانی عمل سے یہ ہیرے دھیرے دھیرے زمینی سطح کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ اس عمل میں لاکھوں سال لگتے ہیں۔
دوسری جانب سائنسداں ایک عرصے سے تجربہ گاہوں میں ہیرے بنانے پر غور کررہے ہیں۔ اس ضمن میں تجارتی کمپنیوں نے بھی کام کیا ہے اور مختلف طریقوں سے مصنوعی ہیرے وضع کئے گئے ہیں۔ لیکن ان سب میں ایک بات قدر مشترک ہے کہ کاربن کو ہیرے میں بدلنے کے لیے غیرمعمولی توانائی اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اب اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک کم خرچ اور آسان طریقہ اختیار کیا ہے جس کے تحت تجربہ گاہ میں آسانی سے مصنوعی ہیرا تیار کیا گیا ہے۔ اس پر کام کرنے والی پروفیسر سلگے پارک نے کہا کہ یہ ایک صاف و شفاف سسٹم ہے جس میں صرف ایک ہی شے کو خالص ہیرے میں بدلا گیا ہے اور اس میں کوئی عمل انگیز (کیٹے لسٹ) استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
سب سے پہلے پیٹرول کی ٹنکیوں سے صاف شدہ پاؤڈر نکالا گیا اور اسے طاقتور خردبین کے نیچے دیکھا گیا ۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ اس کے اندر کے ایٹم عین اسی طرح ترتیب میں ہیں جس طرح ہیرے کے اندر ان کی تشکیل ہوتی ہے۔ تاہم روایتی ہیروں کے برخلاف یہ بہت باریک ہیں اور خالص کاربن پر مشتمل ہیں۔ ان کے اندر ہائیڈروجن بھی موجود ہے۔
اسے بنانے کے لیے سفوف کو پہلے لیزر سے گرم کیا گیا اور کئی اقسام کے ٹیسٹ سے گزارا گیا۔ اس طرح ہائیڈروجن غائب ہوئی اور 627 درجے سینٹی گریڈ پر ایٹم ایک خاص ترتیب میں آکر ہیرے کی شکل اختیار کرگئے۔
تاہم یہ ہیرے بہت چھوٹے اور باریک ہیں جن کا مقصد تحقیقی ہی ہوسکتا ہے ۔ یعنی ہم ہیروں کی تشکیل کے بارے میں بہت کچھ جان سکیں گے۔ تاہم اس سے مصنوعی ہیرے بہت تیزی سے بنائے جاسکتے ہیں اور انہیں طب، کوانٹم کمپیوٹنگ اور الیکٹرانکس وغیرہ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
Comments are closed.