میڈیکل انجینئرنگ کے امریکی ماہرین نے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی نئی ذہین پٹی (اسمارٹ بینڈیج) تیار کی ہے جو نہایت باریک سوئیوں سے لیس ہے اور جسے اسمارٹ فون یا کسی بلیو ٹوتھ ڈیوائس سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ سائنسدانوں کی اسی ٹیم نے گزشتہ چند سال کے دوران مختلف ذہین پٹیاں تیار کی تھیں۔ نئی ذہین پٹی بھی ان ہی کا تسلسل ہے جو سابقہ پروٹوٹائپس سے کہیں بہتر ہے۔
پچھلے پروٹوٹائپس کی طرح یہ اسمارٹ بینڈیج بھی ماحول دوست پولیمر سے بنائی گئی ہے جس کے اندر دوا بھرنے کے لیے جگہ موجود ہے۔ البتہ نئے ڈیزائن میں اس پٹی پر انتہائی باریک اور نوکیلی سوئیوں کا اضافہ کیا گیا ہے جو اندر سے کھوکھلی ہیں، جبکہ اس پٹی کو اسمارٹ فون ایپ یا بلیو ٹوتھ ڈیوائس سے کنٹرول بھی کیا جاسکتا ہے۔
باریک سوئیاں اس طرح کی ہیں کہ یہ کھال میں نہایت باریک سوراخ کرتے ہوئے، جلد کی بیرونی سطح میں اترتی چلی جاتی ہیں جو مردہ خلیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ مردہ جلد کے اندر وہ متاثرہ مقام تک دوا کی ضروری مقدار پہنچاتی ہیں جسے مریض یا معالج اپنی ضرورت و سہولت کے حساب سے خود کنٹرول کرسکتا ہے۔
اس ذہین پٹی کے مرکزی موجد ڈاکٹر علی تمایل ہیں جن کا تعلق یونیورسٹی آف نبراسکا لنکن سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زخم کی بحالی میں مردہ خلیات پر مشتمل بیرونی جلد سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے کیونکہ یہ دوا کو زخم تک پہنچنے سے روکتی ہے اور اس کی افادیت کم کردیتی ہے۔
یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے ہی ملی میٹر پیمانے کی باریک باریک سوئیوں کو اسمارٹ بینڈیج کا حصہ بنایا گیا ہے جو ایسی سرنجوں کا کردار ادا کرتی ہیں جو کھال میں اترتی ضرور ہیں لیکن نہ تو ان سے کوئی تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی خون نکلتا ہے۔
بینڈیج میں بھری ہوئی دوا انہی سوئیوں کے اندر سے ہوتے ہوئے کسی ڈھکے ہوئے زخم یا متاثرہ حصے تک پہنچتی ہے اور کم مقدار میں بھی زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
بحالی کی رفتار اور نوعیت دیکھتے ہوئے اسمارٹ فون ایپ یا بلیو ٹوتھ ڈیوائس کے ذریعے کھال میں سوئیوں کے پیوست ہونے کی گہرائی سے لے کر ان کے راستے متاثرہ مقام پر پہنچنے والی دوا کی مقدار تک کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر تمایل کا کہنا ہے کہ ویسے تو اسمارٹ پٹی کو ہر طرح کے زخموں کو بہتر طور پر مندمل کرنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا خصوصی اور شاید مفید ترین استعمال ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ممکن ہوسکے گا جن کے معمولی زخم بھی بھرنے میں بہت وقت لیتے ہیں اور بعض اوقات ایسے ہی زخموں کی وجہ سے ان کے اعضا بھی کاٹنے پڑ جاتے ہیں۔
Comments are closed.